بچپن



مثالی اَوصاف سے مزین بچپن:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! اَمیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا بچپن عام بچوں سے حیرت انگیز حد تک مختلف اور مثالی اَوصاف سے مُزّین تھا۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے مَحلے میں رہنے والے ایک اسلامی بھائی جو آپ کو بچپن سے جانتے ہیں انہوں نے حلفیہ بتایا کہ’’ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ بچپن ہی سے نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔اُس وقت بھی اگر آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو کوئی ڈانٹ دیتا یا مار تا تو جواباً انتقامی کاروائی کے بجائے آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ خاموشی اختیار فرماتے اور صبر کرتے ،ہم نے انہیں بچپن میں بھی کبھی کسی کو برا بھلا کہتے یا کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔‘‘کم عمْری ہی میں اَحکامِ شریعت کی پاسداری کرنااور مَدَنی احتیاطیں اپنانااِس بات کی نشاندہی تھی کہ اِس مَدَنی مُنّے کے تقویٰ وپرہیز گاری کے اَنوارایک عالَم کو منور کریں گے۔ا اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ

’’امیرِ اہلسنّت‘‘کےدس حُروف کی نسبت سے 10ایمان افروز حکایات

(1) بچپن میں خوف ِخدا عَزَّوَجَلَّ

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ابھی بہت چھوٹی عمر میں تھے کہ کسی بات پر ہمشیرہ نے ناراض ہوکر کہا:’’ تم کو اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مارے گا(یعنی سزا دے گا)۔‘‘یہ سن کر آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ مارے خوف کے سہم گئے اور بہن سے محبت بھرااِصرار فرمانے لگے: ’’بولو، مجھے  اللہ عَزَّوَجَلَّ  نہیں مارے گا،…بولو، مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ  نہیں مارے گا…بولو، مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ نہیں مارے گا۔‘‘آخر کار آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ بہن سے یہ کہلواکر ہی رہے۔

(2)بچپن میں د ینی رُجحا ن

با ب المدینہ (کراچی) میں ا میرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے عالمِ طفولیت کے دور میں ایک بار کوئی وَبا پھیلی تھی۔ اس موقع پر آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ اپنے ہم عمر بچوں کے ہمراہ گلیوں وغیرہ میں اذانیں دیتے تاکہَ وبا سے نَجات  حاصل ہو۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اتنی کم عمری ہی سے جب کہ عام بچے شرارتوں اور کھیل کود کو پسند کرتے ہیں آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا ان چیزوں کی طرف میلان ہونے کے بجائے دینی مشغولیات کی طرف رُجحان تھا۔

(3) صَد مے سے چُور چُور قَلْب

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک مرتبہ کچھ اس طرح سے بتایاکہ ’’میرے بچپن کے دنوں میں ایک بار گھر کے برآمدے کی طرف جاتے ہوئے اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ’’سبھی بچے کسی نہ کسی کی طرف باپا، باپا کہہ کربڑھتے ہیں اور اُس سے لپٹ جاتے ہیں پھر ان کے باپا انہیں گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں ، انہیں شیرینی دلاتے ہیں اور کبھی کبھی کھلونے بھی دلاتے ہیں ، کاش ! ہمارے گھر میں بھی باپا ہوتے ، میں بھی اُن سے لپٹتااوروہ مجھے پیار کرتے ۔‘‘ یہ سوچ کر میرا ننھاسا دل بھرآیا ، میں نے بے اختیارپھوٹ پھوٹ  کر رونا شروع کردیا۔ میرے رونے کی آواز سن کر میری بڑی ہمشیرہ جلدی سے وہاں آئیں اور اپنے ننھے یتیم بھائی کو گود میں لیکر بہلانے لگیں۔‘‘ 

(4) مَدَ نی سوچ

ایک مرتبہ دورانِ گفتگو امیرِاَہلسنّت  دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے متعلقین کی ترغیب کیلئے کچھ یوں اِرشاد فرمایا:’’اللہ و رَسول  عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے فضْل و کرم سے حُقوق العِباد کی ادائیگی کا خوف بچپن ہی سے میرے دل میں بیٹھا ہوا ہے۔ جب میں چھوٹا اور تقریبًا ناسمجھ تھا،یتیمی اور غربت کا دور تھا۔ حُصولِ مُعاش کے لئے بھنے ہوئے چنے اورمونگ پھلیاں چھیلنے کے لئے گھرمیں لائی جاتی تھیں۔

ایک سیر چنے چھیلنے پر چار آنے، ایک سیر مونگ پھلیاں چھیلنے پر ایک آنہ مزدوری ملتی۔ ہم سب گھر والے مل کر اسے چھیلتے۔میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار چند دانے منہ میں ڈال لیتا لیکن پھر پریشان ہوکر والدہ محترمہ سے عرْض کرتا:’’ ماں ! مونگ پھلی والے سے مُعاف کرالینا ۔‘‘چنانچہ والدہ محترمہ سیٹھ سے کہتیں کہ:’’ بچے دو دانے منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ ‘‘ جواباً وہ کہہ دیتا:’’کوئی بات نہیں۔‘‘

یہ سن کر میں سوچتا کہ میں نے تودو دانے سے زیادہ کھائے ہیں مگر ماں نے تو صرف دو دانے مُعاف کروائے ہیں ؟‘‘ بعد میں جب شُعور آیا تو پتہ چلا کہ’’ دو دانے‘‘  مُحاورہ ہے اور اس سے مُراد تھوڑے دانے ہی ہیں اور میں کبھی تھوڑے دانے کھا لیتا تھا۔‘‘

ایک  مرتبہ مَدَنی مذاکرے کے دوران امیراہلسنّت  امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے آلام ومصائب میں صبر کی ترغیب دیتے ہوئے کچھ یوں ارشاد فرمایا:’’ مشکل وقت نکل ہی جاتا ہے ، میں نے بھی بچپن میں بہت آزمائشیں اُٹھائیں ،وہ وقت بھی گزر ہی گیا ۔

ہمارے گھر میں پنکھا نہیں تھا اور دیواریں کچی ہونے کے باعث کھٹملوں کے کاٹنے کی آزمائش الگ تھی ۔ہم بہن بھائی باری باری ایک دوسرے کو پنکھا جھلتے تاکہ گرمی کی شدّت سے کچھ تو بچت ہو ۔میں نے بہت چھوٹی عمر میں کسبِ حلال کے لئے کوششیں شروع کردی تھیں۔ دوسرے بچوں کی طرح میرا بچپن کھیل کود میں نہیں گزرا،میری والدہ مرحومہ ایک بار کسی کو یہ بتاتے ہوئے روپڑی تھیں کہ ’’میرا بیٹا بچپن میں کھیلا نہیں ، اس نے کھیلنے کے دن بھی کام کاج کرتے ہوئے گزار دئیے ہیں۔‘‘

(5) دیانت دار مَدَنی منّا

۱۴۲۲ھ بابُ المدینہ (کراچی) میں عاشقانِ رسول کا ایک مَدَنی قافلہ کھارادر باب المدینہ کراچی کی بخاری مسجد میں پہنچا ۔ایک مُبَلِّغ کے بیان کا خلاصہ ہے کہ بعد نمازِ ظہر وُضو خانہ پر ایک ضعیف العمر شخص سے میری ملاقات ہوئی۔  امیر اَہلسنّت ِ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا تذکرہ ہونے پر وہ کہنے لگے :’’بیٹا!آپ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو نہیں جانتے !میں انہیں کم سِنی سے جانتا ہوں ،یہ بچپن ہی سے شرعِی معاملات میں محتاط ہیں۔ انہوں نے چھوٹی عمر ہی سے رزقِ حلال کے حصول کی خاطر مختلف ذرائع اپناتے ہوئے کئی کام کئے ۔ایک بار بچپن ہی میں آپ (دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ)ریڑھی پر ٹافیاں اور  بسکٹ وغیرہ بیچ رہے تھے کہ ایک بچے نے دوآنے کی ٹافیاں مانگیں۔آپ نے اسے تین ٹافیاں دیں ،ابھی مزید تین دینے ہی لگے تھے کہ وہ بچہ بھاگتا ہوا سامنے گلی میں داخل ہوا اور نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ۔سخت گرمی کا موسم تھا مگر آپ(دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ)کو فکرِآخرت نے بے چین کردیا ۔ چنانچہ شدید گرمی میں بھی آپ اس بچے کو تلاش کرنے لگے تاکہ اسے بقیہ ٹافیاں دے سکیں۔ آپ کو اس بچے کا نام معلوم تھا نہ پتا۔آپ دروازوں پر دستک دے دے کر اور گلی میں موجود لوگوں کے پاس جاجاکر اس بچے کا حلیہ بتاکر اس کے بارے میں دریافت کرتے ۔جب لوگوں پر حقیقت آشکار ہوتی تو کچھ مسکرا کر رہ جاتے اور کچھ حیران رہ جاتے کہ اتنی چھوٹی سے عمر میں تقوٰی کا کیا عالم ہے ! بالآخر آپ مطلوبہ گھر تک جا پہنچے ۔ دستک کے جواب میں ایک بوڑھی خاتون نے دروازہ کھولا تو آپ نے سارا ماجرا بیان کیا ۔ وہ بڑھیا تڑپ کر بولی :’’بیٹا تم بھی کسی کےلال ہو ،ایسی چلچلاتی دھوپ میں تو پرندے بھی گھونسلوں میں ہیں اور تم ایک آنہ کی چیز دینے کے لئے اس طرح گھوم رہے ہو ۔‘‘آپ (دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ) نے گفتگو کو طول دینے کے بجائے کہا :’’اگر میں ابھی نہیں دوں گا تو بروزِ قیامت ربّ عَزَّوَجلَّ کی بارگاہ میں اس کا حساب کیسے دوں گا؟‘‘ یہ کہہ کر آپ نے ٹافیاں اس خاتون کے ہاتھ میں تھمائیں اور سکون کا سانس لیا ۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بچپن کی یہ مَدَ نی احتیاطیں بتا رہی تھیں کہ آج کا مَدَنی منا کل آسمانِ ولایت کا چاند بن کر چمکنے والا ہے ۔انْ شَاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ

(6)نوافل کی ادائیگی

دعوتِ اسلامی کے اَوائل ہی سے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے والے ایک اسلامی بھائی نے بتایا کہ جب ہم دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کے بعد دعوتِ اسلامی کے اوّلین مدنی مرکز’’گلزارِ حبیب مسجد‘‘ میں نمازِ فجر ادا کر کے پیدل امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے گھر (کاغذی بازارکھارادر باب المدینہ کراچی )پہنچتے۔آپ کے گھر تشریف لے جانے کے بعد ہم نور مسجد کاغذی بازار کی طرف روانہ ہوجاتے ۔ بعض اوقات راہ میں بیٹھے ہوئے چند بوڑھے حضرات ہمیں قریب بلاکر پوچھتے:’’تم کس کے مُریدہو؟‘‘جب ہم انہیں بتاتے کہ ہم امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے مرید ہیں۔ تو وہ بہت خوش ہوتے اور اپنے حُسنِ ظن کا اظہار کرتے ہوئے ہم سے کچھ یوں کہا کرتے کہ ’’الیاس قادری صاحب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی ہیں ‘‘،بہت عرصہ پہلے جب ہم رات گلی میں گپ شپ کرتے ہوئے گزار دیا کرتے تھے، اُس وقت ہم نے اکثر دیکھاکہ بہت چھوٹی عمرسے ہی الیاس قادری صاحب دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ رات کے آخری پہر سامنے والی مسجد میں تَہَجُّد ادا کرنے آیا کرتے تھے۔ ایک اسلامی بھائی نے بتایا کہ مذکورہ واقعہ جب امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے علم میں آیا تو آپ نے ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ یہ واقعہ دُرُست نہیں ہے۔ میں وہاں تَہَجُّد  پڑھنے نہیں جایا کرتا تھا اور اس وقت میری عمر اتنی کم بھی نہ تھی۔

ہاں یہ ضَرور ہے کہ رات گئے واپسی پر میں گھر جاکر سونے سے پہلے وُضُو کرنے آتاتو تَحِیَّۃُ الْوُضُواور تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدْ  کے نَفل بھی پڑھ لیا کرتا تھا،تَہَجُّد مجھے یاد نہیں پڑتی ۔ اسلئے مہربانی فرماکر یہ واقعہ بلکہ میرے متعلق فضائل پر مبنی دیگر واقعات وغیر ہ مت بیان کیا کریں۔

(7)بچپن میں تَہَجُّد کی عاد ت

اُنہی اسلامی بھائی نے بتایاکہ چند ہی دنوں بعد ایک اسلامی بھائی نے بتایا جس کا خلاصہ ہے کہ میں۱۱شَوَّالُ الْمُکَرَّم۱۴۲۷ھ مطابق04-11-2006بروزہفتہ ہم سحری کے وقت باب المدینہ (کراچی) امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کےدرِ دولت پر حاضر تھا، میں نے عرض کی کہ مَدَنی قافلوں میں سفر اور دیگر مَدَنی کاموں پر عمل میں استقامت نہیں مل پاتی کوئی حلارشاد فرمادیں ؟ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ترغیب دلاتے ہوئے کچھ اس طرح ارشاد فرمایا کہ ابتداً ہر عمل دشوار مَحسوس ہوتا ہے پھر اس کی عادت بن جاتی ہے۔ دل چاہے لگے نہ لگے عمل کو جاری رکھنا چاہئیے۔ جیساکہ عبادات میں تَہَجُّد نفس پر زیادہ گِراں ہے مگر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مجھے بچپن ہی سے رَبّ عَزَّوَجَلَّ کے کرم سی تَہَجُّد کا شوق پیدا ہوا تو اس کے اہتمام کی ترکیب بھی بن گئی ۔ اَلارم کی ترکیب بنا تا،اَوراد وغیرہ پَڑھ کر سوتایا کسی کوبیدار کرنے کیلئے عرض کردیتا یوں تَہَجُّد باآسانی حاصل ہوجاتی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَل اس طرح کی کوشش کرتے رہنے کی بَرَکت سے تَہَجُّد کی ایسی عادت بن گئی کہ  مجھے یاد نہیں پڑتا کہ بچپن میں بھی بِغیر شَرْعِی عُذْر کے میری تَہَجُّد چُھوٹی ہو، اس لیے کسی بھی عمل کو دشوار محسوس کر کے چھوڑنا نہیں چاہیے۔کوشش کرتے رہنے کی صورت میں اِنْ شآء اللہ عَزَّوَجَلَّاس کی عادت بن جائیگی۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سابقہ حکایت میں تَہَجُّد کا تذکرہ ہونے پر امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا برہم ہونا اور بچپن میں تَہَجُّد کی عادت ہونے کے باوجود اظہار نہ کرنا اور دوسری حکایت میں بطورِ ترغیب تَہَجُّد کی عادت کا ذکر کرنا آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے اخلاص کی دلیل ہے ۔

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو

کر اِخلاص ایسا عطا یا الہٰی عَزَّوَجَلَّ

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت  پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔

(8)جذ بۂ عِباد ت

ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ10ذُوالْحِجَّۃِالْحَرام۱۴۲۷ھ(01-01-2007)  بروز پیر رات کم وبیش 3:30بجے امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ مَدَنی مشورے کے باعث آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ابھی تک سو نہ سکے تھے۔ جب آرام کا موقع ملاتو آپ نے ارشاد فرمایا، یہ بَہت عظمتوں والے ایّام ہیں۔ ہمیں تَہَجُّد کیلئے اٹھنے کی ترکیب بنانی چاہیے، عرض کی گئی کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے اس لیے نمازِ فجر تک آرام فرمالیں ، مگر آپ نہ مانے اور دیگر اسلامی بھائیوں کو بھی تَہَجُّد کی ترغیب دلائی اور اس کے فضائل بیان فرمائے، پھر اَلارم سیٹ کیا اور سو گئے ۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ وقت مقررہ پر بیدار ہو کر نہ صرف خود تَہَجُّد کی دولت سے سرفراز ہوئے بلکہ دیگر اسلامی بھائیوں نے بھی آپ کی بَرَکت سے تَہَجُّد پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔

(9)میرا دِ ل بھی چَمکاد ے

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک بار فرمایاکہ مجھے سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ثناء خوانی سے ہوش سنبھالتے ہی لگاؤ ہوگیاتھااور اعلیٰ حضرت عَلَیْہ ِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کی عقیدت بھی دل میں بیٹھ چکی تھی۔ لہٰذا آپ  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لکھے ہوئے کلام پڑھنا اور سُننا پسند کرتا تھا۔ایک مرتبہ میں بادامی مسجد(بمبئی بازارباب المدینہ کراچی) میں شوق ہی شوق میں مائیک پر نعت پڑھنے کھڑا ہوگیا مگر ابھی صرف یہ شعر ہی پڑھ پایا تھا ،

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

میرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے

یکایک ایک بوڑھے شخص نے جھڑکتے ہوئے مجھے مائیک سے ہٹا دیا،شاید اس لئے کہ میں کم سن تھا اور آواز بھی خاص نہ تھی ۔ میرا دل بہت دُکھا مگرسرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُلفت اور  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ  کی عقیدت نے سنبھال لیا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو اس وقت اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے لکھے ہوئے اس کلام کو پڑھنے سے تو روک دیا گیا مگر لگتا یوں ہے کہ بارگاہِ رسالت میں کیا جانے والا یہ استغاثہ (یعنی میرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے ) ایسا مقبول ہوا کہ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا قلب مبارَک کووہ چمک عطا ہوئی جس نے لاکھوں زنگ آلوددلوں کے میل کو دور کرکے مَدَنی چمک سے اُجیالا کر دیا۔

جوانی

امیرِِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی جوانی:

جس طرح امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کابچپن مثالی اوصاف کا حامل تھا اسی طرح آپ کی جوانی بھی تقویٰ و پرہیز گاری کی داستان ہے۔بچپن کی طرح آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی جوانی کا ابتَدائی دوربھی مُعاشی حوالے سے انتہائی کٹھن تھا مگر آپ نے ہمت ہارنے کے بجائے آزمائش سے بھر پور حالات میں بھی عزم واستقلال کے ساتھ دین کی خدمت جاری رکھی۔ ایک موقع پَر آپ نے بطورِ ترغیب اِرشاد فرمایا،جس طرح آج کا نوجوان دنیا کی رنگینیوں کا شیدائی ہے اس کے بَر خِلاف اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ رَبّ عَزّوَجَلَّ کے کرم سے جوانی میں بھی میری طبیعت ان خَرافات کی طرف مائل نہیں تھی بلکہ اس وقت بھی عبادت،تلاوت و اسلامی مطالَعہ کرنے اور دینی مشاغل میں مصروف رہتے ہوئے مساجد میں وقت گزارنے کا ذہن تھا۔

صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !

صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد

( رسالہ ابتدائی حالات،ص۱۹)