اور پاجامہ کھڑے ہو کرپہنا)وہ ایسے مَرَض میں مبتَلا ہوگا جس کی دوا نہیں خ باندھنے سے پہلے رُک جایئے اور اچھی اچھی نیّتیں کر لیجئے ورنہ ایک بھی اچّھی نیّت نہ ہوئی تو ثواب نہیں ملے گالہٰذا کم ازکم یہی نیّت کر لیجئے کہ رضائے الٰہی کیلئے بطورِ سنت عِمامہ باندھ رہا ہوں خ مناسِب یہ ہے کہ عمامے کا پہلا پیچ سر کی سیدھی جانب جائے(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ص ۱۹۹ ) خ خاتَمُ الْمُرْسَلین،رَحمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کے مبارَک عِمامے کا شِملہ عُمُوماً پُشت(یعنی پیٹھ مبارَک) کے پیچھے ہوتا تھا اور کبھی کبھی سیدھی جانب ، کبھی دونوں کندھوں کے درمیان دو شملے ہوتے ، اُلٹی جانب شِملہ لٹکاناخلافِ سنت ہے(اشعۃ اللّمعات ج۳ص ۵۸۲)خ عمامے کے شِملے کی مقدارکم از کم چار اُنگل اورخ زیادہ سے زیادہ(آدھی پیٹھ تک یعنی تقریباً) ایک ہاتھ(فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص ۱۸۲)(بیچ کی انگلی کے سرے سے لیکر کُہنی تک کا ناپ ایک ہاتھ کہلاتا ہے) خ عمامہ قبلہ رُو کھڑے کھڑے باندھئے(کَشْفُ الاِلْتِباس فِی اسْتِحْبابِ اللِّباس ص۳۸)خعمامے میں سنت یہ ہے کہ ڈھائی گز سے کم نہ ہو، نہ چھ گز سے زیادہ اور اس کی بندِش گنبد نُما ہو(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ص۱۸۶)خرومال اگربڑا ہو کہ اتنے پیچ آسکیں جوسرکوچھپالیں تووہ عمامہ ہی ہوگیا اورخ چھوٹا رومال جس سے صرف دوایک پیچ آسکیں لپیٹنا مکروہ ہے(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۷ص ۲۹۹)خ عمامے کو جب از سر نو باندھنا ہوتو جس طرح لپیٹا ہے اسی طرح کھولے اوریک بارگی زمین پر نہ پھینک دے(عالَمگیری ج ۵ ص۳۳۰) خ اگرضرورتاً اتارا اور دوبارہ باندھنے کی نیّت ہوئی تو ایک ایک پیچ کھولنے پر