صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : نیند کی صورت میں کوتاہی نہیں ، کوتاہی اس شخص کی ہے جو(جاگتے میں )نماز نہ پڑھے حتّٰی کہ دوسری نماز کاوقت آجائے ۔ ( مُسلِم ص ۳۴۴ حدیث ۶۸۱)
رات کے آخِری حصّے میں سونا کیسا؟
نَماز کا وَقت داخِل ہو جانے کے بعد سو گیا پھر وقت نکل گیا اور نَماز قَضا ہو گئی تو قطعاً گنہگار ہواجبکہ جاگنے پر صحیح اعتِماد یا جگانے والا موجود نہ ہو بلکہ فجر میں دُخولِ وَقت سے پہلے بھی سونے کی اجازت نہیں ہو سکتی جبکہ اکثر حصّہ رات کا جاگنے میں گزرا اور ظنِّ غالب ہے کہ اب سو گیا تو وَقت میں آنکھ نہ کھلے گی ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۰۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نعت خوانیوں ، ذِکرو فکر کی محفِلوں نیز سنّتوں بھرے اجتِماعات وغیرہ میں رات دیر تک جاگنے کے بعد سونے کے سبب اگر نَمازِ فجر قَضا ہونے کا اندیشہ ہو تو بَہ نیّتِ اعتِکاف مسجِد میں قِیام کریں یا وہاں سوئیں جہاں کوئی قابلِ اعتِماد اسلامی بھائی جگانے والا موجود ہو ۔ یا الارم والی گھڑی ہو جس سے آنکھ کُھل جاتی ہو مگر ایک عدد گھڑی پر بھروسا نہ کیا جائے کہ نیند میں ہاتھ لگ جانے سے یا یوں ہی خراب ہو کر بند ہو جانے کا امکان رہتا ہے ، دو یا حسبِ ضَرورت زائد گھڑیاں ہوں تو بہتر ہے ۔ فقہائے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السلامفرماتے ہیں : ’’جب یہ اندیشہ ہو کہ صبح کی نَماز جاتی رہے گی تو بِلاضَرورتِ شَرعِیَّہ اُسے رات دیر تک جاگنا ممنوع ہے ۔ ‘‘ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۳۳)
ادا، قَضا اور واجِب الاعادہ کی تعریف
جِس چیز کا بندوں کو حکم ہے اُسے وَقت میں بجا لانے کو ادا کہتے ہیں اور وَقت خَتم ہونے کے بعد عمل میں لاناقضا ہے اور اگر اس حکم کے بجا لانے میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو اس خرابی کو دُور کرنے کیلئے وہ عمل دوبارہ بجا لانا اِعادہ کہلاتا ہے ۔ وَقت کے اندر اندر اگرتَحریمہ باندھ لی تو نَمازقضا نہ ہوئی بلکہ ادا ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۶۲۷ ۔ ۶۳۲)مگرنَمازِ فجر ، جُمُعہ اور عیدَین میں وَقت کے اندر سلام پِھرنا لازِمی ہے ورنہ نَماز نہ ہو گی ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۷۰۱) بِلاعُذرِ شَرعی نَمازقضا کر دینا سخت گناہ ہے ، اِس پر فرض ہے کہ اُس کی قضا پڑھے اور سچّے دل سے توبہ بھی کرے ، تو بہ یا حَجِِّّ مقبول سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّتاخیر کا گناہ مُعاف ہو جا ئے گا(دُرِّمُختار ج۲ص۶۲۶) توبہ اُسی وقت صحیح ہے جبکہ قضا پڑھ لے اس کو ادا کئے بِغیر توبہ کئے جانا توبہ نہیں کہ جو نَماز اس کے ذمّے تھی اس کو نہ پڑھنا تو اب بھی باقی ہے اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ کہاں ہوئی ؟ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۲۷)
حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاسرضی اللہ تعالٰی عنھماسے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، پیکرِ جودو سخاوت، سراپا رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : گناہ پر قائم رہ کر توبہ کرنے والا اس کی مثل ہے جواپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ٹَھٹّھا ( یعنی مذاق) کرتا ہے ۔
(شُعَبُ الْاِیمان ج۵ص۴۳۶حدیث۷۱۷۸)