صد رُالافاضِل حضرتِ علّامہ سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھادِیفرماتے ہیں : ’’توبہ کے تین رُکن ہیں : {۱} اِعتِرا فِ جُرم{۲} نَدامت{۳} عزمِ ترک(یعنی اِس گناہ کوچھوڑنے کاپُختہ عہد) ۔ اگر گُناہ قابلِ تَلافی ہے تو اُس کی تَلافی بھی لازِم ۔ مَثَلاً تارِکِ صلوٰۃ (یعنی نَمازتَرک کر دینے والے )کی توبہ کیلئے نَمازوں کی قضا بھی لازِم ہے ۔ ‘‘ (خَزا ئِنُ الْعِرفان ص۱۲)
سوتے کو نَماز کیلئے جگانا واجِب ہے
کوئی سو رہا ہے یا نَماز پڑھنا بھول گیا ہے تو جسے معلوم ہے اُس پر واجِب ہے کہ سوتے کو جگا دے اور بھُولے ہوئے کو یاد دِلا دے ۔ (ورنہ گنہگار ہوگا)(بہارِ شریعت ج۱ص۷۰۱) یاد رہے ! جگانا یا یاد دلانااُس وَقت واجِب ہو گا جبکہ ظَنِّ غالِب ہو کہ یہ نَماز پڑھے گا ورنہ واجِب نہیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خوب صدائے مدینہ لگائیے یعنی سونے والوں کو نَماز کیلئے جگائیے اور ڈھیروں نیکیاں کمائیے ۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں فَجر کے لئے مسلمانوں کو جگانا صدائے مدینہ لگانا کہلاتا ہے ، صدائے مدینہ واجِب نہیں ، نَمازِ فَجر کے لئے جگانا کارِ ثواب ہے جو ہر مسلمان کو حسبِ موقع کرنا چاہئے ۔ صدائے مدینہ لگانے میں اِس بات کی احتِیاط ضَروری ہے کہ کسی مسلمان کو ایذا نہ ہو ۔
ایک اسلامی بھائی نے مجھے ( سگِ مدینہ عفی عنہ کو) بتایا تھا ہم چند اسلامی بھائی میگا فون پر فَجر کے وَقت صدائے مدینہ لگاتے ہوئے ایک گلی سے گزرے ۔ ایک صاحب نے ہم کوٹوکا اور کہا کہ میرا بچّہ رات بھر نہیں سویا ابھی ابھی آنکھ لگی ہے آپ لوگ میگا فون بند کر دیجئے ۔ ہم کو ان صاحِب پر بڑا غصّہ آیا کہ نہ جانے کیسا مسلمان ہے ، ہم نَماز کیلئے جگا رہے ہیں اور یہ اِس نیک کام میں رُکاوٹ ڈال رہا ہے ! خیر دوسرے دن ہم پھر صدائے مدینہ لگاتے ہوئے اُس طرف جانکلے تو وُہی صاحِب پہلے سے گلی کے نُکَّڑ پر غمزدہ کھڑے تھے اور ہم سے کہنے لگے : آج بھی بچّہ ساری رات نہیں سویا ابھی ابھی آنکھ لگی ہے اِسی لئے میں یہاں کھڑا ہو گیا تا کہ ہماری گلی سے خاموشی سے گزرنے کی آپ حضرات کی خدمات میں درخواست کروں ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ بِغیر میگا فون کے صدائے مدینہ لگائی جائے ۔ نیز بِغیر میگا فون کے بھی اس قَدَر بُلند آوازیں نہ نکالی جائیں جس سے گھر وں میں نَماز و تلاوت میں مشغول اسلامی بہنوں ، ضعیفوں ، مریضوں اور بچّوں کو تشویش ہو یا جو اوّل وقت میں پڑھ کر سو رہا یا سو رہی ہو اُس کی نیند میں خلل پڑے ۔ اور اگر کوئی مسلمان اپنے گھر کے پاس صدائے مدینہ لگانے سے روکے تو اُس سے ضدبحث کرنے کے بجائے اُس سے مُعافی مانگ لی جائے اور اس پرحُسنِ ظن رکھا جائے کہ یقینا کوئی مسلمان نَماز کیلئے جگانے کا مخالف نہیں ہو سکتا، اس بچارے کی کوئی مجبوری ہو گی ۔ بِالفرض وہ بے نَمازی ہو تو بھی آپ اُس پر سختی کرنے کے مَجاز نہیں ، کسی مناسب وَقت پر انتِہائی نرمی کے ساتھ انفِرادی کوشِش کے ذَرِیعے اُس کو نَماز کیلئے آمادہ کیجئے ۔ مساجِد میں بھی اذانِ فَجر وغیرہ کے علاوہ بے موقع نیز مَحَلّوں یا مکانوں کے اندر محافِلِ نعت وغیرہ میں اسپیکر استِعمال کرنے والوں کو بھی اپنے اپنے گھروں میں عبادت کرنے والوں ، مریضوں ، شیر خوار بچّوں اور سونے والوں کی ایذا کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے ۔
حُقُوقِ عامّہ کے اِحساس کی حکایت