حیلے کے جواز پر ایک اور دلیل مُلا حَظہ فرمایئے چُنانچِہحضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے روایت ہے کہ ایک بارحضرت ِ سیِّدَتُناسارہ اور حضرتِ سیِّدَتُنا ہاجرہ رضی اللہ تعالٰی عنھما میں کچھ چَپقَلَش ہو گئی ۔ حضرتِ سیِّدَتُنا سارہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے قسم کھائی کہ مجھے اگر قابو ملا تو میں ہا جِرہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا کوئی عُضو کاٹوں گی ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا جبر ئیل عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکوحضرت سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی خدمت میں بھیجا کہ ان میں صُلح کروا دیں ۔ حضرتِ سیِّدَتُنا سارہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عرض کی : ’’ مَاحِیلَۃُ یَمِیْنِی؟ ‘‘ یعنی میری قسم کا کیا حِیلہ ہو گا ؟ تو حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر وَحی نازِل ہوئی کہ (حضرتِ )سارہ(رضی اللہ تعالٰی عنھا) کو حکم دو کہ وہ (حضرتِ) ہاجِرہ (رضی اللہ تعالٰی عنھا)کے کان چَھید دیں ۔ اُسی وَقت سے عورَتوں کے کان چَھیدنے کا رَواج پڑا ۔ (غَمزُعُیونِ الْبَصائِر لِلْحَمَوِی ج ۳ ص ۲۹۵)
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے رِوایت ہے کہ دو جہان کے سلطان ، سرورِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں گائے کا گوشت حاضِر کیا گیا ، کسی نے عَرض کی : یہ گوشت حضرتِ سَیِّدَتُنا بَرِیرہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پر صَدَقہ ہوا تھا ۔ فرمایا : ھُوَ لَھَا صَدَقَۃٌ وَّلَنَا ھَدِیَّۃٌ یعنی یہ بَرِیرہ کے لیے صَدَقہ تھا ہمارے لیے ہدِیّہ ہے ۔ ( مُسلِم ص۵۴۱حدیث۱۰۷۵)
اِس حدیثِ پاک سے صاف ظاہِر ہے کہ حضرتِ سَیِّدَتُنا بَرِیرہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جو کہ صَدَقے کی حقدارتھیں ان کو بطورِ صَدَقہ مِلا ہوا گائے کا گوشت اگر چِہ ان کے حق میں صَدَقہ ہی تھا مگر ان کے قَبضہ کر لینے کے بعد جب بارگاہِ رسالت میں پیش کیا گیا تھا تو اُس کا حکم بدل گیا تھا اور اب وہ صَدَقہ نہ رہا تھا ۔ یوں ہی کوئی مستحق شَخص زکوٰۃ اپنے قَبضے میں لینے کے بعد کسی بھی آدمی کو تحفۃً دے سکتا یا مسجِد وغیرہ کیلئے پیش کر سکتا ہے کہ مذکورہ مستحق شخص کا پیش کرنا اب زکوٰۃ نہ رہا ، ہدیَّہ یا عَطِیَّہ ہو گیا ۔ فُقَہائے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السلام زکوٰۃ کا شرعی حِیلہ کرنے کا طریقہ یوں ارشاد فرماتے ہیں : زکوٰۃ کی رقم مرُدے کی تَجہیز وتکفین یا مسجِدکی تعمیر میں صَرف نہیں کر سکتے کہ تَملیکِ فقیر ( یعنی فقیر کو مالِک کرنا)نہ پائی گئی ۔ اگر ان اُمور میں خرچ کرنا چاہیں تو اِس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو ( زکوٰۃ کی رقم کا ) مالِک کردیں اور وہ ( تعمیرِ مسجِد وغیرہ میں )صَرف کرے ، اس طرح ثو اب دونوں کو ہو گا ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۸۹۰ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے !کفن دَفن بلکہ تعمیرِ مسجِد میں بھی حیلۂ شرعی کے ذَرِیعے زکوٰۃ ا ستِعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ زکوٰۃ تو فقیر کے حق میں تھی جب فقیر نے قَبضہ کر لیا تواب وہ مالِک ہوچکا، جو چاہے کرے ۔ حیلۂ شَرعی کی بَرَکت سے دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی اور فقیر بھی مسجِد میں دیکر ثواب کا حقدار ہو گیا ۔ فقیرِشَرعی کو حِیلے کا مسئلہ بے شک سمجھا دیا جائے ۔
فقیر وہ ہے کہ٭ جس کے پاس کچھ نہ کچھ ہو مگر اتنا نہ ہوکہ نِصاب کو پَہنچ جائے یا ٭ نصاب کی قَدَر توہو مگر اس کی حاجتِ اَصلِیّہ (یعنی ضَروریاتِ زندگی) میں مستغرق (گِھراہوا ) ہو ۔ مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان، سُواری کے جانور( یا اسکوٹر یا کار)، کاریگروں کے اَوزار، پہننے کے کپڑے ، خِدمت کیلئے لونڈی ، غلام، عِلمی شُغل رکھنے والے کے لیے اسلامی کتابیں جو اس کی ضَرورت سے زائد نہ ہوں ٭