ہیں کہ ہم نے مرحوم کی تمام نَمازوں کا فِدیہ ادا کر دیا یہ ان کی غَلَط فَہمی ہے ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۱۶۷)یادرکھئے !مرحوم کی نمازوں کا فدیہ اولاداوردیگر وُرثا کی طرح کوئی عام مسلمان بھی دے سکتا ہے ۔ (مِنْحَۃُ الْخالِقِ عَلَی الْبَحْرِ الرّائِق لابن عابدِین ج۲ ص ۱۶۰ مُلَخّصاً)
عورت کی عادتِ حیض اگر معلوم ہو تو اس قدر دن اور نہ معلوم ہو تو ہر مہینے سے تین دن نو برس کی عمر سے مُستثنیٰ کریں مگر جتنی بار حمل رہا ہو مدّتِ حَمل کے مہینوں سے ایّامِ حَیض کا اِستِثناء نہ کریں ۔ عورت کی عادت دربارۂ نِفاس اگر معلوم ہوتو ہرحَمل کے بعد اُتنے دن مُستَثنیٰ کرے اور نہ معلوم ہوتو کچھ نہیں کہ نِفاس کے لئے جانبِ اَقَل (کم سے کم)میں شرعاًکچھ تقدیر نہیں ۔ ممکن ہے کہ ایک ہی مِنَٹ آ کر فوراً پاک ہو جائے ۔ (ماخوذاَز فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۱۵۴)
سادات کرام کو نماز کا فِدیہ نہیں دے سکتے
میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن سے سیّدوں ا ورغیر مسلموں کونَماز کا فدیہدینے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : یہ صَدَقہ( یعنی نماز کافِدیہ) حضراتِ ساداتِ کرام کے لائق نہیں اور ہُنُود وغیرہُم کُفّارِ ہند اِس صَدَقے کے لائق نہیں ۔ ان دونوں کو دینے کی اَصلاً اجازت نہیں ، نہ ان کے دیے ادا ہو ۔ مسلمین مساکین ذَوِالقربیٰ غیر ہاشِمین(یعنی اپنے مسکین مسلمان رشتے دار غیر ہاشمیوں ) کو دینا دُونا(یعنی دُگنا) اَجر ہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۱۶۶)
100 کوڑوں کا حیلہ
حِیلَۂشَرعی کا جواز قراٰن و حدیث اورفِقہِ حنفی کی مُعتَبر کُتُب میں موجود ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی بیماری کے زمانے میں آپ عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالٰی عنھاایک بار خدمتِ سراپا عَظَمت میں تاخیر سے حاضِر ہوئیں تو آپ عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے قسم کھائی کہ ’’میں تندُرُست ہو کر سو کوڑے ماروں گا‘‘ صِحّتیاب ہونے پر اللہ عَزَّوَجَلَّنے انہیں سو تیلیوں کی جھاڑو مارنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ (نور العرفان ص ۷۲۸ مُلَخّصاً)ا للہ تبارَکَ وَ تَعالٰیپارہ 23 سُورَۃُ صٓکی آیت نمبر44میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ- (پ۲۳، ص : ۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اِس سے مار دے اور قسم نہ توڑ ۔
’’ عالمگیری ‘‘ میں حِیلوں کاایک مُستقِل باب ہے جس کا نام ’’کتابُ الْحِیَل‘‘ ہے چُنانچِہ عالمگیری’’ کتابُ الْحِیَل‘‘ میں ہے : ’’ جو حِیلہ کسی کا حق مارنے یا اُس میں شُبہ پیدا کرنے یا باطِل سے فَریب دینے کیلئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحِیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدَمی حرام سے بچ جائے یا حلال کو حاصِل کر لے وہ اچّھا ہے ۔ اس قسم کے حیلوں کے جائز ہونے کی دلیل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا یہ فر مان ہے :
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ- (پ۲۳، ص : ۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اِس سے مار دے اور قسم نہ توڑ ۔ (عالمگیری ج۶ص۳۹۰)
کان چَھید نے کا رَواج کب سے ہوا؟