ہے ترا وہ دبدبہ یاغوثِ اعظم دست گیر
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۲} غوث پاک کا دیوانہ
سگِ مدینہ عُفِیَ عَنہُکے آبائی گاؤں کُتیانہ (گجرات ، الہند) کا ایک واقِعہ کسی نے سنایا تھا کہ وہاں ایک غوث پاک کا دیوانہ رہا کرتا تھا جوکہ گیار ہو یں شریف نہایت ہی اہتمام سے مناتا تھا ۔ ایک خاص بات اُس میں یہ بھی تھی کہ وہ سیِّدوں کی بے حد تعظیم کرتا، ننّھے مُنّے سیِّدزادوں پرشَفقَت کا یہ حال تھا کہ انہیں اُٹھائے اُٹھائے پھرتا اور انہیں شیرینی وغیرہ خرید کر پیش کرتا ۔ اس دیوانے کا انتقال ہوگیا ۔ میِتّ پر چادر ڈالی ہوئی تھی ، سوگوار جمع تھے کہ اچانک چادر ہٹا کر وہ غوث پاک کا دیوانہ اُٹھ بیٹھا ۔ لوگ گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے ، اُس نے پکار کرکہا : ڈرو مت، سنو توسَہی !لوگ جب قریب آئے توکہنے لگا : بات دراصل یہ ہے کہ ابھی ابھی میرے گیارہویں والے آقا ، پِیروں کے پِیر ، پیر دستگیر، روشن ضمیر، قُطبِ رَبّانی، محبوبِ سبحانی، غوثُ الصَّمدانی، قِندیلِ نورانی، شَہبازِ لامکانی، پیرِ پیراں ، میرِمیراں ، اَلشَّیخ ابو محمّد عبدُالقادِر جیلانیقُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِیتشریف لائے تھے ، اُنہوں نے مجھے ٹھوکر لگائی اورفرمایا : ’’ ہمارا مرید ہوکر بِغیر توبہ کئے مرگیااُٹھ اور توبہ کرلے ۔ ‘‘ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمجھ میں رُوح لوٹ آئی ہے تاکہ میں توبہ کرلوں ۔ اِتنا کہنے کے بعد دیوانے نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کی اورکلمۂ پاک کا وِرد کرنے لگا ، پھراچانک اس کا سرایک طرف ڈَھلک گیا اوراُس کا انتِقال ہوگیا ۔
رضاؔ کا خاتِمہ بِالخیر ہوگا اگر رَحمت تری شامل ہے یاغوث
سرکارِ بغداد حضور غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دیوانوں اورمُریدوں کو مبارَک ہوکہ سرکارِبغدادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد فرماتے ہیں : میرا مرید چاہے کتنا ہی گنہگار ہو وہ اُس وَقت تک نہیں مرے گا جب تک توبہ نہ کرلے ۔ (ایضاًص۱۹۱)
مجھ کو رُسوا بھی اگر کوئی کہے گا تو یُونہی
کہ وہی نا وہ گدا بندۂ رُسوا تیرا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۳} دل میری مُٹھی میں ہیں
حضرتِ سیِّدُنا عمر بزاررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ، ایک بارجُمُعۃُ المُبارَککے رو زمیں حضورِ غوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکے ساتھ جامِع مسجد کی طرف جا رہا تھا ، میرے دل میں خیال آیا کہ حیرت ہے جب بھی میں مُرشِد کے ساتھ جُمُعہ کو مسجد کی طرف آتاہوں تو سلام ومصافَحَہ کرنے والوں کی بھیڑ بھاڑکے سبب گزرنا مشکل ہوجاتاہے ، مگر آج کوئی نظر تک اُٹھا کر نہیں دیکھتا! میرے دل میں اس خیال کا آناہی تھا کہ حضور ِغوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم میری طرف دیکھ کر مسکرائے اوربس، پھر کیا تھا!لوگ لپک لپک کر مصافحہ کرنے کے لیے آنے لگے ، یہاں تک کہ میرے اورمرشدِ کریم عَلَیہِ رَحمَۃُ اللہِ الرَّحِیْم کے درمیان ایک ہجوم حائِل ہوگیا ۔ میرے دل میں آیا کہ اِس سے تووُہی حالت بہتر تھی ۔ دل میں یہ خیال آتے ہی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے مجھ سے فرمایا : اے عمر!تم ہی تو ہُجُوم کے طلبگار تھے ، تم جانتے نہیں کہ لوگوں کے دل میری مُٹھی میں ہیں اگر چاہوں تو اپنی طرف مائل کر لوں اورچاہوں تو دُور کردوں ۔ (بَہْجَۃُ الاسرارص۱۴۹)
کُنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبت کا خزینہ تیرا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد