امدادُاللہ مہاجِر مکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاپنے دِیوان ’’ نالۂ امداد‘‘ میں عرض گزار ہیں : ؎
لگا تکیہ گناہوں کا پڑا دن رات سوتا ہوں
مجھے اب خوابِ غفلت سے جگا دو یا رسولاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۵} لوٹا قبلہ رُخ ہوگیا
ایک بار جِیلان شریف کے مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکا ایک وَفْد حُضور سیِّدُنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی خدمتِ سراپا عَظَمت میں حاضِرہوا ، اُنہوں نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے لوٹے شریف کو غیرِ قبلہ رُخ پایا(تواُس کی طرف آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی توجُّہ دلائی اِس پر ) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے خادِم کو جلا ل بھری نظر سے دیکھا ۔ وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے جلال کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک دم گرا اورتڑپ تڑپ کر جان دے دی ۔ اب ایک نظر لوٹے پر ڈالی تو وہ خود بخود قبلہ رُخ ہوگیا ۔ (بہجۃُ الاسرار ص۱۰۱)
خدارا! مرہَمِ خاکِ قدم دے
جگر زخمی ہے دل گھائل ہے یا غوث
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سرکارِبغدادحُضورِ غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دیوانو!یقینامَحَبَّت کا اعلی دَرَجہ یہی ہے کہ اپنے محبوب کی ہر ہر ادا کو خوش دلی کے ساتھ اپنا لیا جائے ۔ لہٰذا ہوسکے تو لوٹے کی ٹونٹی ہمیشہ قبلہ رُخ رکھاکیجئے ۔ حُضورمُحدِّثِ اعظم پاکستان حضر ت مولانا سرداراحمد صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہلوٹے کے علاوہ اپنے نَعلینِ مُبارَکین بھی قبلہ رُخ ہی رکھا کرتے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ سگِ مدینہ عُفی عنہ ان دونوں اولیاءے کرامرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَاکی اِتِّباع میں حتَّی الامکان اپنے لوٹے اورجُوتیوں کا رُخ قبلہ ہی کی طرف رکھتاہے ۔ بلکہ خواہِش یہی ہوتی ہے کہ ہر چیز کا رُخ جانبِ قبلہ رہے ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا چِہرہ بھی مُمکِنہ صُورت میں قِبلہ رُخ رکھنے کی عادَت بنانی چاہئے کہ اِس کی بَرَکتیں بے شُمار ہیں چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام بُرہانُ الدّین ابراہیم زَرنوجی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنقل فرماتے ہیں : دو طَلَبہ علمِ دین حاصِل کرنے کیلئے پردیس گئے ، دونوں ہم سبق رہے ، جب چند سالوں کے بعد وطن لوٹے تو ان میں ایک فَقِیہ (یعنی زبردست عالم ومُفتی ) بن چکے تھے جبکہ دوسرا عِلم و کمال سے خالی ہی رہا تھا ۔ اُس شہر کے عُلَمائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اِس اَمر پر خوب غَور و خَوض کیا، دونوں کے حُصولِ علم کے طریقۂ کار ، اندازِ تکرار اوراُٹھنے بیٹھنے کے اطوار وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی تو ایک بات نُمایاں طور پر سامنے آئی کہ جو فَقِیہ بن کرپلٹے تھے اُن کا معمول یہ تھا کہ وہ سبق یاد کرتے وَقْت قِبلہ رُو بیٹھا کرتے تھے جبکہ دوسرا جو کہ کَورے کاکَورا پلٹا تھا وہ قبلے کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھنے کا عادی تھا ۔ چُنانچِہ تمام عُلَماء و فُقَہاء رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اِس بات پر مُتَّفق ہوئے کہ یہ خوش نصیب اِستِقبالِ قِبلے (یعنی قبلے کی طرف رُخ کرنے ) کے اِہتِمام کی بَرَکت سے فَقِیہ بنے کیوں کہ بیٹھتے وقت کعبۃُ اللہ شریفکی سَمْت مُنہ رکھنا سنّت ہے ۔ (تَعلِیمُ الْمُتعلّم ص۶۸)
’’ بیتُ اللہ الکریم‘‘کے 13 حُروف کی نسبت سے قِبلہ رُخ بیٹھنے کے 13مَدَ نی پھول