صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اوربزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِینکی مسواک شریف سے مَحَبَّت مرحبا! اور ان کی پیاری پیاری ادائیں صَد کروڑ مرحبا ! یہ ذِہن میں رہے ! آج کل مسواک کا ن پر رکھ کر یا گردن میں لٹکا کر یا عمامے شریف میں رکھ کر اگر کوئی گھرسے باہَر نکلے تو شاید لوگ انگلی اُٹھائیں اور مذاق اُڑائیں لہٰذا عوام کے سامنے یہ انداز اختیار نہ کیا جائے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں ایک مخصوص مستحب کام کے کرنے کے بارے میں اِستفتا پیش ہوا، (یعنی فتویٰ مانگاگیا) تو چُونکہ اُس امرِ مستحب پر ہند کے اندر عمل کرنے میں فتنے کا احتمال (یعنی امکان) تھا لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا : ’’جہاں اس کا رَواج ہے مستحب ہے، (مگر) ان بَلاد (یعنی ہند کے شہروں ) میں کہ اس کا ( نام و) نشان نہیں ، اگر واقِع ہو ( یعنی کوئی کرے) تو جہال ( یعنی جاہِل لوگ) ہنسیں اورمَسئلۂ شرعیہ پر ہنسنا اپنا دین برباد کرنا ہے، تو یہاں اِس پر اِقدام ( یعنی عمل) کی حاجت نہیں ۔ خودایک مُستَحَب بات کرنی اور مسلمانوں کو ایسی سخت بلا ( یعنی شریعت کے مسائل پر ہنسنے کی آفت) میں ڈالنا پسندیدہ نہیں۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص ۶۰۳ )
لکھنے والے کا کان پر قلم رکھنا اچّھا ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُنا زید ابن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے کاتب (یعنی ایک لکھنے والا آدمی) تھا میں نے حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر رکھو کہ یہ انجام کو زیادہ یاد کرانے والا ہے ۔ (تِرمذی ج ۴ ص ۳۲۷ حدیث۳ ۲۷۲ )
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اگر کاتب (یعنی لکھنے والا) قلم کو کان سے لگائے رکھے تو اُسے وہ مقصد یاد رہے گا جو اُسے لکھنا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قلم داہنے (یعنی سیدھے) کان پر رکھے۔ اللہ تَعَالٰی نے ہر چیز میں کوئی (نہ کوئی ) تاثیر رکھی ہے، قلم کان میں لگانے کی یہ تاثیر ہے کہ اسے (یعنی کان پر قلم رکھنے والے کو) مضمون یاد رہتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۶ص۳۳۴) اس سے مراد نفسیاتی تاثیر واثر بھی ہوسکتا ہے ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مِسواک رکھنے کیلئے مخصوص جیب بنوا یئے
ہو سکے تو اپنے کرتے میں سینے پر دائیں بائیں دو جیب بنوایئے اور دل کی جانب ( یعنی الٹے ہاتھ کی طرف والی) جیب کے برابر میں مسواک رکھنے کیلئے ایک چھوٹی سی جیب بنوالیں ۔ یوں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیاری پیاری سنّت مسواک شریف گویا سینے اور دل سے لگی رہے گی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۶} سونے کے سکّے کے بدلے مسواک خریدی (حکایت)
حضرتِ سیِّدُنا عبدا لوہّاب شَعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینقل کرتے ہیں : ایک بار حضرت ِسیِّدُنا ابو بکر شبلی بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیکو وُضو کے وَقت مِسواک کی ضَرورت ہوئی، تلاش کی مگر نہ ملی، لہٰذا ایک دینار (یعنی ایک سونے کی اشرفی) میں مِسواک خرید کر استعمال فرمائی۔ بعض لوگوں نے کہا : یہ تو آپ نے بہت زیادہ خرچ کر ڈالا! کہیں اتنی مہنگی بھی مِسواک لی جاتی ہے! فرمایا : بیشک یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّ وَجَلَّکے نزدیک مچھر کے پر برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں ، اگر بروزِ قِیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھ سے یہ پوچھ لیا کہ ’’ تو نے میرے پیارے حبیب (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی سنّت (مِسواک) کیوں ترک کی؟ جو مال و دولت میں نے تجھے دیاتھااُس کی حقیقت تو (میرے نزدیک) مچھر کے پر برابر بھی نہیں تھی ، تو آخر ایسی حقیر دولت اِس عظیم سنّت ( مِسواک) کو حاصل کرنے پر کیوں خرچ نہیں کی؟‘‘تو کیا جواب دوں گا! (مُلَخَّص اَزلواقح الانوار ص ۳۸) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّ وَجَلَّکی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
اے عاشقانِ رسول! دیکھا آپ نے! ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِینسُنَّتوں سے کِس قَدر پیار کرتے تھے! حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر شبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالینے ایک دِینار (یعنی سونے کی اَشرفی) مکے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنّت مِسواک شریف پرقربان کردیا ۔
{۷} آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے! (حکایت)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! ہر سنّت مخزنِ حکمت ہے، مِسواک ہی کو لے لیجئے! اِس سنّت کی بَرَکتوں کے بھی کیا کہنے ! ایک بیوپاری کا بیان ہے: ’’سوئیزرلینڈ‘‘