عقیقے کے بارے میں سوال جواب

جواب : بچّہ / بچّی کی ولادت کی مَسرَّت پر بطورِ شکر ِ نعمت ادائے سنّت کیلئے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رِضا کی خاطِر عقیقے کی سعادت حاصِل کرتا ہوں ۔ اِس کے علاوہ بھی حسبِ حال نیّتیں کی جاسکتی ہیں ۔ یاد رہے !بِغیر اچّھی نیّت کے عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا ۔ ظاہِر یہی ہے کہ عقیقہ کرتے وَقت کرنے والے کے دل میں نیّتِ عقیقہ ہوتی ہوگی تاہم جتنی اچّھی اچّھی نیّتیں زیادہ اُتنا ثواب بھی زیادہ  ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہے : نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ’’مسلمان کی نیّت اُسکے عمل سے بہتر ہے  ۔ ‘‘(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۶ ص۱۸۵ حدیث۵۹۴۲ )

کیا عقیقہ نہ کرنا گناہ ہے ؟

سُوال3 : کیا ـ’’عقیقہ ‘‘نہ کرنے والا گنہگار ہوتا ہے ؟

جواب : عقیقہ فرض یا واجِب نہیں ہے صِرْف سنّتِ مُستَحبَّہ (مُس ۔  تَ  ۔ حَب ۔ بَہ) ہے ،  تَرْک کرنا گناہ نہیں  ۔ (اگر گنجائش ہو تو ضَرور کرناچاہئے ، نہ کرے تو گناہ نہیں البتّہ عقیقے کے ثواب سے محرومی ہے ) غریب آدَمی کو ہر گز جائز نہیں کہ سُودی قرضہ لے کر عَقیقہ کرے  ۔ ( ماخوذ ازاسلامی زندگی ص۲۷ )

بے عقیقہ مرنے والا بچّہ شَفاعت کرے گا یا نہیں ؟

 سُوال4 : کیا یہ دُرُست ہے کہ جو بچّہ بِغیر عقیقہ اِنتِقال کرگیا وہ اپنے والِدَین کی شَفاعت  نہیں کرے گا؟

جواب : جی ہاں !مگر اس کی صورَتیں ہیں : جس بچّے نے عقیقے کا وقت پایا یعنی وہ بچّہ سات دن کا ہوگیا اور بِلاعُذْر جبکہ استِطاعت(یعنی طاقت) بھی ہو اُس کا عقیقہ نہ کیا گیاتو وہ اپنے ماں باپ کی شَفاعت نہ کرے گا ۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ اَلْغُـلَامُ مُرْتَہَنٌ بِعَقِیْقَتِہٖیعنی ’’ لڑکا اپنے عقیقیمیں گِروی ہے  ۔ ‘‘(تِرمِذی ج۳ ص۱۷۷ حدیث۱۵۲۷ ) اَشِعَّۃُ اللَّمْعاتمیں ہے ، امام احمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’بچّے کا جب تک عقیقہ نہ کیاجائے اُس کو والِدَین کے حق میں شَفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے  ۔ ‘‘(اشعۃُ اللّمعات ج۳    ص۵۱۲) صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ ، حضرتِ  علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیمذکورہ حدیث پاک کے تَحْت فرماتے ہیں  : ’’گِروی ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے پورانَفْعْ حاصِل نہ ہو گا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض (مُحَدِّثین) نے کہا بچّے کی سلامَتی اور اُس کی نَشْو ونُما(پھلنا پھولنا) اور اُس میں اچّھے اَوصاف (یعنی عمدہ خوبیاں )ہونا عقیقے کے ساتھ وابَستہ ہیں ۔                (بہارِ شریعت ج ۳ ص ۳۵۴)

سُوال5 : جس کا ’’عقیقہ‘‘ نہ ہوا کیا وہ جوانی میں اپنا عقیقہ کر سکتا ہے ؟

جواب : جی ہاں !جس کا عقیقہ نہ ہوا ہو وہ جوانی، بُڑھاپے میں بھی اپنا عقیقہ کرسکتا ہے (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ص ۵۸۸) جیسا کہ رَسُوْل اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعلانِ نُبُوَّت کے بعد خود اپنا عقیقہ کیا ۔ (مصنّف عبد الرّزاق ج ۴ ص۲۵۴ حدیث ۲۱۷۴)

کچّا حَمْل گر جانے کی فضیلت

سُوال6 : کیا حَمل گر جانے کی صورت میں عقیقہ کرنا ہوگا؟

جواب : نہیں ۔ کچّاحَمْل گر جانے کے سبب عُمُوماً ماں باپ بَہُت پریشان ہوجاتے ہیں ۔ اُن کی تسلّی کیلئے عَرض ہے کہ ایسے موقع پر صَبْر کرکے اجر کمانا چاہئے  ۔ کچّاحَمل گر جانے میں ماں باپ کا بَہُت بڑا بَہُت ہی بڑا فائدہ ہے ۔ چُنانچِہ، اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حبیب، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بے شک کچّا بچہ (یعنی ماں کے پیٹ سے نامکمَّل گِر جانے والا) اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے (اُس وَقت ) جھگڑے گا جبکہ اس کے والِدَین (جن کا ایمان پر خاتِمہ ہوا ہوگا مگر شامت ِاعمال کے سبب ان )  کو اللہ تَعَالٰی  دوزخ میں داخِل فرمائے گا، حکم ہوگا : اے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے جھگڑنے والے بچّے ! اپنے ماں باپ کو جنّت میں لے جا، لہٰذا وہ اپنی نال([1])  سے دونوں کو کھینچے گا یہاں تک کہ انہیں جنَّت میں لے جائے گا ۔  ( اِبنِ ماجہ ج۲ ص۲۷۳ حدیث ۱۶۰۸)   

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس روایت سے ایمان کی سلامَتی کی اَھَمِّیَّت بھی اُجاگر ہوئی کہ شَفاعت کی نعمت پانے کیلئے ایمان کا سلامَت ہونا لازِمی ہے لہٰذا ہر ایک کو اپنے ایمان کی سلامَتی کی فکر کرنی چاہئے ۔ یقینا  ایمان کی سلامتی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا میں پوشیدہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کی رِضا اُس کی اور اس کے حبیب صَلَّی



[1]      یعنی وہ آنت جو رِحمِ مادر میں بچے کے پیٹ سے جُڑی ہوتی ہے اور جسے پیدائش پر کاٹ کر جدا کردیتے ہیں  ۔

Index