اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری میں ہے اور ایمان کی بربادی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی میں پوشیدہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی اُس کی اور اُس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی میں ہے ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں ایمان کی سلامَتی عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
سُوال7 : اگر بچّہ پیدا ہونے کے بعد سات دن سے پہلے پہلے فَوت ہوجائے تو اُس کے عقیقے کا کیا کریں ؟ اگر مرنے کے بعد کردیں تو والِدَین کی شَفاعت کرے گا یا نہیں ؟
جواب : اب عقیقے کی حاجت نہیں ایسا بچّہ شَفاعت کرسکے گا ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں : جو مرجائے کسی عمر کا ہو اس کا عقیقہ نہیں ہوسکتا ، بچّہ اگر ساتویں دن سے پہلے ہی مرگیا تواُس کیعقیقہنہ کرنے سے کوئی اثر اُس کی شَفاعت وغیرہ پر نہیں کہ وہ وقتِ عقیقہ آنے سے پہلے ہی گزرگیا ، عقیقے کا وَقْت شریعت میں ساتواں دن ہے ۔ جو بچّہ قبلِ بُلوغ (یعنی بالغ ہونے سے پہلے )مرگیا اور اُس کاعقیقہ کردیا تھا، یاعقیقےکی استِطاعت (طاقت) نہ تھی یا ساتویں دن سے پہلے مرگیا ، ان سب صورَتوں میں وہ ماں باپ کی شَفاعت کرے گا جبکہ یہ (یعنی ماں باپ)دنیا سے با ایمان گئے ہوں ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۵۹۶ ۔ ۵۹۷)
سُوال8 : اگر کسی نے ساتویں دن سے قَبل ہی بچّے کا عقیقہ کر دیا تو؟
جواب : اگر چِہ عقیقے کا وَقت ساتویں روز سے شروع ہوتا ہے اور سنّت وافضل یہی ہے تاہم اِس سے قبل حتّٰی کہ ایک دن کے بچّے کا بھی عقیقہ کر دیا تو ہو گیا ۔
بچّہ کے کان میں کتنی بار اَذان دیں ؟
سُوال9 : برائے کرم !یہ بھی بتادیجئے کہ بچّہ یا بچّی پیدا ہو تواُس کے کان میں اَذان کب اور کتنی بار دیں ؟بچّے کانام کون سے دن رکھیں اور سر کے بال کس دن صاف کروائیں ؟
جواب : جب بچّہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اَذان واِقامت کہی جائے اَذان کہنے سے اِنْ شَآءَاللہ تَعَالٰی بلائیں دُور ہوجائیں گی ۔ امامِ عالی مقام حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین ابنِ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے : جس شخص کے ہاں بچّہ پید ا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچّہ اُمُّ الصِّبْیان سے محفوظ رہے گا ۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی ج۶ ص۳۲ حدیث۶۷۴۷)اُمُّ الصِّبْیان کیمُتَعلِّق عاشِقوں کے امام، امامِ اہلسنّت، مُجَدِّد ِ دین و ملّت ، پروانۂ شمعِ رسالت ، عاشِقِ ماہِ نُبُوَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : (صَرْع)بہت خبیث بَلَا ہے اور اسی کو اُمُّ الصِبْیَان کہتے ہیں اگر بچّوں کو ہو، ورنہ صَرْع (مرگی ) ۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۴۱۷) ’’نزہۃ القاری‘‘ میں ہے : صَرْع کے معنی بے ہوش ہو کر گرپڑنے کے ہیں یہ کبھی اَخلاط([1])کے فساد کے سبب ہوتا ہے جسیمِرگی کہتے ہیں اور کبھی جِنّ یا خبیث ہمزادکے اثر سے ہوتا ہے ۔ (نزہۃ القاری ج۵ ص۴۸۹) میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں : جب بچّہ پیداہو فوراً سیدھے کان میں اذان بائیں (الٹے ) میں تکبیر کہے کہ خَلَلِ شیطان واُمُّ الصِّبْیان سے بچے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۴ص۴۵۲) بہتریہ ہے کہ دَہنے (یعنی سیدھے ) کان میں چار مرتبہ اَذان اور بائیں (یعنی اُلٹے ) کان میں تین مرتبہ اِقامت کہی جائے ۔ ( اگر ایک مرتبہ اذان و اقامت کہہ دی تب بھی کوئی حَرج نہیں )ساتویں دن اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مُونڈا جائے اور سر مُونڈانے کے وَقْتعقیقہ کیا جائے اور بالوں کو وزْن کرکے اُتنی چاندی یا سونا صَدَقہ کیا جائے ۔ (بہارِشریعت ج۳ ص۳۵۵)
[1] اَخلاط ، خلط کی جمع ۔ جسم کی چار خِلطَیں(۱) صَفرا( یعنی پِت) (۲) خون(۳) بلغم اور (۴) سَودا( جَلا ہوا سیاہ بلغم)