جواب : صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ، حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : بچّے کا اچّھا نام رکھا جائے ۔ ہندوستان میں بَہُت لوگوں کے ایسے نام ہیں جن کے کچھ معنٰی نہیں یا ان کے بُرے معنی ہیں ایسے ناموں سے اِحتِراز(یعنی پرہیز) کریں ۔ ا نبیائے کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامکے اَسمائے طیِّبہ اور صَحابہ وتابِعین وبُزُرگانِ دین(رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن) کے نام پر نام رکھنا بِہتر ہے ۔ اُمّید ہے کہ ان کی بَرَکت بچّے کے شاملِ حال ہو ۔ (بہارِشریعت ج۳ص۳۵۶) اُمُّ المؤْمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے : نبیِّ رَحمت، شفیعِ امّت، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اچّھوں کے نام پر نام رکھو اور اپنی حاجَتیں اچّھے چہرے والوں سے طَلَب کرو ۔ (اَلْفِرْدَوْس بمأ ثور الْخَطّاب ج۲ ص۵۸ حدیث ۲۳۲۹ )
صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ، حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : عبدُاللّٰہ و عبدُالرحمن بَہُت اچّھے نام ہیں مگر اس زمانے میں یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ عبدُ الرحمن کے بجائے اُس شخص کو لوگ رَحْمٰنکہتے ہیں اور غیرِ خدا کو رحْمٰن کہنا حرام ہے ۔ اسی طرح کثرت سے ناموں میں تَصْغِیر (تَصْ ۔ غِیْر) کا رواج ہے ، یعنی نام کو اس طرح بگاڑتے ہیں جس سے حَقارت نکلتی ہے اور ایسے ناموں میں تَصْغِیر ہر گز نہ کی جائے لہٰذا جہاں یہ گُمان ہو کہ ناموں میں تَصغِیر کی جائیگی یہ نام نہ رکھے جائیں دوسرے نام رکھے جائیں ۔ (بہارِشریعت ج ۳ ص ۳۵۶ )
سُوال17 : ’’محمد ‘‘نام رکھنے کے فضائل ارشاد ہوں ۔
جواب : اِس ضِمْن میں چار فرامِینِ صادِق وامین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعرض کرتا ہوں : ـ {۱}جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری مَحَبَّت اور میرے نام سے بَرَکت حاصِل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے وہ (یعنی نام رکھنے والا والِد)اور اُس کا لڑکا دونوں بَہِشت(یعنی جنّت) میں جائیں ۔ (کَنْزُ الْعُمّال ج۱۶ ص۱۷۵ حدیث ۴۵۲۱۵ ) {۲}روزِ قِیامت دو شخص ربُّ العِزَّت کے حُضُور کھڑے کئے جائیں گے ۔ حُکم ہو گا : انہیں جنّت میں لے جاؤ ۔ عَرض کریں گے : الٰہی (عَزَّ وَجَلَّ)!ہم کس عمل پر جنّت کے قابِل ہوئے ؟ہم نے تو جنّت کا کوئی کام کیا نہیں ! فرمائے گا : جنّت میں جاؤ، میں نے حَلف کیا (یعنی قسم فرمائی)ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ میں نہ جائے گا ۔ (اَلْفِرْدَوْس بمأثور الْخَطّاب ج۵ص۴۸۵ حدیث ۸۸۳۷، فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص ۶۸۷) {۳}تم میں کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے گھر میں ایک محمد یا دو محمد یا تین محمد ہوں ۔ (اَلطَّبَقاتُ الْکُبریٰ لابن سعد ج۵ ص ۴۰ ) {۴} جب لڑکے کا نام محمد رکھو تو اُس کی عزّت کرو اور مجلِس میں اُس کیلئے جگہ کُشادہ کرو اور اُسے بُرائی کی طرف نسبت نہ کرو ۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۴۹ حدیث ۷۰۶)
محمَّد نام رکھنے کی دو نِیَّتیں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اگر بِغیر اچّھی نیّت کے فَقَط یوں ہی محمد نام رکھ لیا تو ثواب نہیں ملے گاکیونکہ ثواب کمانے کیلئے ’’اچّھی نیّت‘‘ ہوناشَرْط ہے اور حدیثِ پاک نمبر 1 میں دو اچّھی نیّتوں کی صَراحَت(یعنی وضاحت )بھی ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مَحَبَّت اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے بَرَکت حاصِل کرنے کی نیّت سے محمد نام رکھنے والے خوش قسمت باپ اور محمد نامی بیٹے کیلئے جنّت کی بِشارت ہے ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ جلد 24صَفْحَہ691 پر فرماتے ہیں : ’’ بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے ان کے ساتھ ’’ جان ‘‘ وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں ۔ ‘‘ آج کل مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نام بگاڑنے کی وَباعام ہے حالانکہ ایسا کرنا گُناہ ہے اور محمد نام کا بگاڑنا تو بَہُت ہی سخْت تکلیف دِہ ہے ۔ لہٰذا عقیقہ میں نام محمد یا احمد رکھ لیجئے اور پکارنے کیلئے مَثَلاً بِلال رضا ، ہِلال رضا، جمال رضا، کمال رضا، اور زید رضا وغیرہ رکھ لیا جائے ۔ اسی طرح بچیوں کے نام بھی صحابِیات و وَلِیّات کے ناموں پر رکھنا مناسِب ہے جیسا کہ سکینہ ، زَرِینہ، جمیلہ، فاطِمہ، زینب ، مَیمونہ ، مریم وغیرہ ۔
عقیقے میں کتنے جانور ہونے چاہئیں ؟
سُوال18 : بچّہ یا بچّی کے عقیقے میں جانوروں کی تعداد کے بارے میں بھی ارشادفرمادیجئے ۔