جواب : لڑکے کیلئے دو اور لڑکی کیلئے ایک ہو ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خا ن عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : (دونوں کیلئے )کم سے کم ایک (ایک جانور) تو ہے ہی اور پِسَر(یعنی بیٹے ) کیلئے دو (جانور) افضل ہیں (بیٹے کیلئے دو کی) اِستِطاعت (یعنی طاقت) نہ ہو تو ایک بھی کافی ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۵۸۶ )
سُوال19 : عقیقے کا جانور کیسا ہونا چاہئے ؟
جواب : ایک قَصّاب سے عقیقے کے لیے جانور خریدنے کے مُتعلِّق کئے گئے ایک سُوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ان اُمور میں اَحکامِ عقیقہ مِثْلِ قربانی ہیں ، اَعْضا سلامت ہوں ، بکرا بکری ایک سال سے کم کی جائز نہیں ، بَھیڑ، مَینڈھا چھ مہینہ کا بھی ہوسکتا ہے جبکہ اتنا تازہ و فَربہ ہوکہ سال بھر والوں میں مِلادیں تو دُور سے مُتَمَیَّزنہ ہو(یعنی دیکھنے میں سال بھر کا نظر آئے ) (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ص۵۸۴) عقیقے کے جانور کے مُتعلِّق حضرتِ علّامہ شامیقُدِّسَ سِرُّہُ السّامی فرماتے ہیں ، ’’بدائِع‘‘ میں ہے : افضل قربانی یہ ہے کہ مَینڈھا، چِتْکُبرا، سینگوں والااور خَصّی ہو ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۵۴۹ )
سُوال20 : عقیقہ یا قربانی کے جانور کی عمر میں شک ہو تو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : عمر کم ہونے کا شُبہ ہو تواُس جانور کی قُربانی یا عقیقہ نہ کرے ۔ اِس ضِمْن میں فتاویٰ رضویہ جلد 20صَفْحَہ583اور584سے دو جُزْئِیّات مُلاحَظہ ہوں : {۱} سال بھر سے کم کی بکری عقیقے یا قربانی میں نہیں ہو سکتی ، اگر مَشکوک حالت ہے تو وُہ بھی ایسی ہی ہے کہ سال بھر کی نہ ہونا معلوم ہو، لِاَنَّ عَدَمَ الْعِلْمِ بِتَحَقُّقِ الشَّرْطِ کَعِلْمِ الْعَدَمِ‘‘(شرط کے پائے جانے کا علم نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے اس چیز کے نہ ہونے کا علم ہو) {۲}جبکہ سال بھر کامل ہونے میں شک ہے تو اس کا عقیقہ نہ کریں اور (جانوربیچنے والے )قَصّاب کا قول یہاں کافی نہیں کہ (جانور) بِکنے میں اِس (یعنی بیچنے والے )کا نَفْع ہے اور (سال بھر کا بچّہ جودانت توڑتا ہے وہ اس نے ابھی نہ توڑے یہ) حالتِ ظاہِرہ اِس (بیچنے والے ) کی بات(یعنی جانور کامل ہونے کے دعوے ) کو دَفْع کررہی ہے ۔ وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَم (خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر جانور کی عمر پر یہ شک ہو کہ یہ بکرا سال بھر کا نہیں معلوم ہوتا یا گائے شاید دو سال سے کم عمر کی ہے تو ایسی مشکوک حالت میں اُس جانور کی قربانی یاعقیقہ نہیں ہو سکتا)
عقیقے کے گوشْتْ کی تقسیم کا مسئلہ
سُوال21 : عقیقے کے گوشت کی تقسیم کس طرح کریں ؟
جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : (عقیقے کا)گوشْتْ بھی مِثْلِ قربانی تین حصّے کرنا مُستَحب ہے ، ایک اپنا، ایک اَقارِب، ایک مساکین کااور چاہے تو سب کھالے خواہ سب بانٹ دے ، جیسے قربانی ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ص۵۸۴)
پکا کر کھلائیں یا کچّا بانٹیں ؟
سُوال22 : عقیقے کا گوشْتْ پکا کر کِھلانا افضل ہے یا کچّاگوشت تقسیم کردیں ۔
جواب : پکا کر کِھلانا کچّا تقسیم کرنے سے افضل ہے ۔ (اَیْضاً)
عقیقے کا گوشْتْ ماں باپ کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟
سُوال23 : کیا عقیقہ کے گوشت میں والِدَین کا بھی حصّہ ہے ؟
جواب : یو ں تو کسی کا بھی حصّہ ضَروری نہیں ، البتّہ مُستَحب تقسیم کا بیان ہوچکا ۔ یہ جو مشہور ہے کہ والِدَین نہیں کھاسکتے یہ غَلَط بات ہے ۔ ماں باپ ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ سبھی مسلمان کھا سکتے ہیں ۔
کافِرہ دائی سے زَچگی کروانا حرام ہے
سُوال24 : کہتے ہیں کہ عقیقے کے گوشت میں سے نائی کو سَر اور دائی (Midwife) کو ران دینا چاہئے اور اگر دائی کافِرہ ہو تو کیا کرے ؟