ان کی خدمت میں رہ کر فتوٰی لکھنا یہ کا م بھی مستقل طور پر انجام دیتے تھے ۔ پھر شہر وبیرونِ شہر کے اکثر تبلیغِ دین کے جلسوں میں بھی شرکت فرماتے تھے ۔
صدرُ الشَّریعہ بدرُالطَّریقہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی کا روزانہ کا جَدْوَل کچھ اِس طرح تھا کہ بعد نمازِ فَجر ضَروری وظائف وتلاوتِ قراٰن کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پریس کا کام انجام دیتے ۔ پھر فوراً مدرَسہ جاکر تدریس فرماتے ۔ دوپَہَر کے کھانے کے بعد مُستَقِلا کچھ دیر تک پھر پریس کا کام انجام دیتے ۔ نماز ِظہر کے بعدعَصر تک پھر مدرَسہ میں تعلیم دیتے ۔ بعد نَمازِ عصر مغرِب تک اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی خدمت میں نشست فرماتے ۔ بعدِ مغرِب عشاء تک اور عشاء کے بعد سے بارہ بجے تک اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی خدمت میں فتوٰی نَویسی کا کام انجام دیتے ۔ اسکے بعد گھر واپَسی ہوتی اور کچھ تحریری کام کرنے کے بعد تقریباً دو بجے شب میں آرام فرماتے ۔ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کے اخیر زمانۂ حیات تک یعنی کم وبیش دس برس تک روزمرَّہ کا یہی معمول رہا ۔ حضرت ِصدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی کی اس محنت شاقّہ وعزم واستقلال سے اُس دَور کے اکابِر علماء حیران تھے ۔ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کے بھائی حضرت ننھے میاں مولانا محمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَنّان فرماتے تھے کہ مولانا امجد علی کام کی مشین ہیں اور وہ بھی ایسی مشین جو کبھی فیل نہ ہو ۔
مصنِّف بھی، مقرِّر بھی، فَقیہِ عصرِ حاضِر بھی
وہ اپنے آپ میں تھا اک ادارہ علم و حکمت کا
صحیح اور اَغلاط سے مُنَزَّہ(مُ ۔ نَز ۔ زَہ) احادیثِ نَبوِیّہ واقوالِ ائمّہ کے مطابِق ایک ترجَمہ کی ضَرورت محسوس کرتے ہوئے آپ نے ترجمۂ قراٰن پاک کے لئے اعلیٰ حضرتعَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی بارگاہ ِعظمت میں درخواست پیش کی توارشاد فرمایا : ’’ یہ تو بہت ضَروری ہے مگر چھپنے کی کیا صورت ہوگی؟ اس کی طَباعت کا کون اہتِمام کرے گا؟ باوُضو کاپیوں کو لکھنا ، باوُضو کاپیوں اور حُرُوفوں کی تصحیح کرنا اور تصحیح بھی ایسی ہو کہ اِعراب نُقطے یا علامتوں کی بھی غلطی نہ رہ جائے پھریہ سب چیزیں ہوجانے کے بعد سب سے بڑی مشکِلتو یہ ہے کہ پریس مین ہمہ وقت باوُضورہے، بِغیر وُضو نہ پتھّر کو چھوئے اور نہ کاٹے، پتھّر کا ٹنے میں بھی احتیاط کی جائے اور چھپنے میں جو جوڑیاں نکلی ہیں انکو بھی بَہُت احتیاط سے رکھا جائے ۔
آپ نے عرض کی : ’’ اِن شاءَ اللّٰہ جو باتیں ضروری ہیں ان کو پوری کرنے کی کوشِش کی جا ئے گی، بِالفرض مان لیا جائے کہ ہم سے ایسا نہ ہو سکا تو جب ایک چیز موجود ہے تو ہو سکتا ہے آئندہ کوئی شخص اس کے طبع کرنے کا انتِظام کرے اور مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے میں کوشش کرے اور اگر اس وقت یہ کا م نہ ہوسکاتو آئندہ اس کے نہ ہو نے کا ہم کو بڑا افسوس ہو گا ۔ ‘‘ آپ کے اس معروض کے بعد تر جَمہ کا کا م شروع کر دیا گیا بِحَمدِ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مَساعیٔ جمیلہ سے خاطر خواہ کا میا بی ہوئی اور آج مسلمانوں کی کثیر تعداد مُجدِّداعظم، امام اہلسنّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کے لکھے ہوئے قرآنِ پاک کے صحیح ترجمہ ’’ ترجَمۂ کنزالایمان ‘‘ سے مُستفید ہو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (یعنی صدرالشریعہ)کی ممنونِ اِحسان ہے اور اِن شَاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّیہ سلسلہ قِیامت تک جاری رہے گا ۔
گر اہلِ چمن فخر کریں اس پہ بجا ہے
امجد تھا گلابِ چمنِ دانش و حکمت
میرے آقااعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّتنے سوائے صدرُ الشَّریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی کے کسی کو بھی حتّٰی کہ شہزادگان کو بھی اپنی بیعت لینے کے لئے وکیل نہیں بنایا تھا ۔
صدرُ الشَّریعہ کا خطاب کس نے دیا؟
الملفوظ حصّہ اولصَفْحَہ183مطبوعہ مکتبۃ المدینہ میں ہے کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّتنے فرمایا : آپ مَوجودِ ین میں تَفَقُّہ (تَ ۔ فَق ۔ قُہْ) جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحِب میں زیادہ پائیے گا، اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اِستِفتاء سنایا کرتے ہیں اور جو میں جواب دیتا ہوں لکھتے ہیں ، طبیعت اَخّاذ ہے، طرز سے واقِفِیَّت ہوچلی ہے ۔ ‘‘ میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّتنے ہی حضرت مولانا امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی کو صدرُ الشَّریعہ کے خطاب سے نوازا ۔
اٹھا تھا لے کے جو ہاتھوں میں پرچم اعلیٰ حضرت کا
وہ مِیرِکارواں ہے کاروانِ اہلسنّت کا
ایک دن صبح تقریباً9بجے ، میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن مکان سے باہَر تشریف لائے، تخت پرقالین بچھانے کا حکم فرمایا ۔