تذکرہ صدر الشریعہ

بلندی پر ستارہ  کیوں   نہ ہو پھر اُس  کی قسمت کا

دیا امجد نے جس کو درس قانونِ شریعت کا

 صَبْر وتحمل

            بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حکیم شمسُ الہُدٰی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا انتقال ہو گیا تو صدر الشریعہ  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی  اُس وقت نمازِ تراویح ادا کر رہے تھے  ۔ اطلاع دی گئی تشریف لائے  ۔  ’’  اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ‘‘ پڑھا اور فرمایا  : ابھی آٹھ رَکعت تراویح باقی ہیں  ، پھر  نَماز میں   مصروف ہوگئے ۔

سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خواب میں   آ کر فرمایا

             آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شہزادی  ’’ بنو ‘‘  سخت بیمار تھیں  ۔ اِس دَوران ایک دن بعد نمازِ فجر حضرت صدر الشَّریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی نے قراٰن خوانی کے لیے طَلَبہ و حاضِرین کو روکا ۔  بعدِ ختمِ قراٰنِ مجید آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مجلس کو خطاب فرمایا کہ میری بیٹی ’’  بنو ‘‘  کی علالت(بیماری) طویل ہو گئی ، کوئی علاج کارگر نہیں   ہوا اور فائدے کی کوئی صورت نہیں   نکل رہی ہے، آج شب میں   نے خواب دیکھاکہ سروَرِ کونین ، رحمتِ عالم روحی فداہ گھر میں   تشریف لائے ہیں   اور فرما رہے ہیں   کہ  ’’ بنو  ‘‘ کو لینے آئے ہیں  ۔ سیِّدالانام حضورِ اکرمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کو خواب میں   دیکھنا بھی حقیقت میں   بِلا شُبہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کو دیکھنا ہے ۔  بنو کی دنیُوَی زندگی اب پوری ہوچکی ہے ۔ مگر وہ بڑی ہی خوش نصیب ہے کہ اسے آقا و مولیٰ ، رحمتِ عالم، محبوبِ ربُّ الْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لینے کے لیے تشریف لائے اور میں   نے خوشی سے سِپرد(سِ ۔ پُرد) کیا ۔ دعائے خیر کے بعد مجلسِ قراٰن خوانی ختم ہو گئی ۔  غالباً اُسی دن یا دوسرے دن بنو کا انتِقال ہو گیا ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔

اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

شہزادگان پر شفقت

          شہزادگان پر شفقت کا جو عالم تھا وہ شہزادۂ صدر الشَّریعہ، شیخ الحدیثِ وَالتفّسیر حضرتِ علامہ عبدُ المصطفے ازہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے اپنے مضمون میں   تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ چُنانچِہ آپ فرماتے ہیں   :

              میں   خدمتِ اقدس میں   حاضِر تھا ۔  مولانا ثَناء ُالمصطفے ، مولانابَہاء ُالمصطفے ، مولانافِداء ُالمصطفے، اس وَقت بَہُت چھوٹے بچّے تھے، وہ گنّا (گنڈیری ) لے کر آتے اور کہتے :   ’’ انا جی اسے گلا بنادو ۔  ‘‘ یعنی اسے چھیل کر کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیجئے ۔ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بڑے پیار محبت سے مسکرا کر گنا ہاتھ میں   لیکر چاقو سے اسے چھیلتے پھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ان لوگوں   کے منھ میں   ڈالتے ۔

گھر کے کاموں   میں   ہاتھ بٹاتے

            بُخاری  شریف میں   ہے :   حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں  : کَانَ یَکُوْنُ فِی مَھْنَۃِ اَہْلِہٖ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے گھر میں   کام کاج میں   مشغول رہتے یعنی گھر والوں   کاکام کرتے تھے ۔ (صَحِیحُ البُخارِی ج۱ص۲۴۱ ، حدیث ۶۷۶دارالکتب العلمیۃ بیروت)اِسی سنّت پر عمل کرتے ہوئے صدرُ الشَّریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی گھر کے کام کاج سے عار(شرم) محسوس نہ فرماتے بلکہ سنّت پر عمل کرنے کی نیّت سے ان کو بخوشی انجام دیتے ۔

صدرُالشَّریعہ کاسنّت کے مطابِق چلنے کا انداز

            تَلمِیذ وخلیفۂ صدرِ شریعت، حافظِ ملت حضرتِ علامہ مو لانا عبد العزیز مبارَک پوری  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بیان کرتے ہیں  : حضورِ سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ راستہ چلتے تو رفتار سے عظمت ووقار کا ظہور ہوتا، دائیں   بائیں   نگاہ نہ فرماتے ، ہر قدم قُوَّت کے ساتھ اٹھاتے، چلتے وَقت جسمِ مبارَک آگے کی طرف قَدرے جُھکا ہوتا، ایسا لگتا گویا اونچائی سے نیچے کی طرف اُ تررہے ہوں  ۔ ہمارے استاذِ محترم صدرُ الشریعہ  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی سنّت کے مطابِق راستہ چلتے تھے، ان سے ہم نے علم بھی سیکھا اور عمل بھی ۔  یہی حضرتِ حافِظِ ملّت فرماتے ہیں   :  ’’  میں  دس سال حضرتِ صدرُ الشریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی کی کفش برداری(یعنی خدمت) میں  رہا، آپ کو ہمیشہ مُتَّبِع سنّت پایا ۔    ؎

جس کی ہر ہر ادا سنّتِ مصطَفٰے

ایسے صدرِ شریعت پہ لاکھوں   سلام

نَماز کی پابندی

            سفر ہو یا حَضَرصدرُالشَّریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی کبھی نَماز قضاء نہ فرماتے ۔  شدید سے شدید بیماری میں   بھی نماز ادا فرماتے ۔ اجمیر شریف میں   ایک بار شدید بُخار میں   مبتَلا ہوگئے یہاں   تک کہ غشی طاری ہوگئی  ۔ دوپَہَر سے پہلے غشی طاری ہوئی اور عصر تک رہی ۔ حافِظ ملّت مولانا عبدُالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَفِیْظ خدمت کے لیے حاضِر تھے، صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی کو جب ہوش آیا تو سب سے پہلے یہ دریافت فرمایا  : کیا وقت ہے ؟ ظہرکا وقت ہے یا نہیں   ؟حافِظ ملّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے عرض کی کہ اتنے بج گئے ہیں   اب ظہر کا

Index