تذکرہ صدر الشریعہ

وَقت نہیں   ۔ یہ سن کر اتنی اَذِیَّت پہنچی کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے  ۔ حافِظ ملّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے دریافت کیا  : کیاحُضور کو کہیں   درد ہے ، کہیں   تکلیف ہے؟فرمایا :  ’’ (بَہُت بڑی)  ‘‘  تکلیف ہے کہ… ظہر کی نَماز قَضاء ہوگئی ۔  ‘‘ حافِظ ملّت  عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے عرض کی : حُضور بیہوش تھے ۔ بیہوشی کے عالم میں  نَماز قضا ہونے پر کوئی مُؤاخَذَہ (قیامت میں   پوچھ گچھ)نہیں    ۔ فرمایا : آپ مُؤاخَذَہکی بات کررہے ہیں   وقتِ مُقَررہ پر دربارِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی ایک حاضِری سے تو محروم رہا ۔

نمازِ باجماعت کا جذبہ

            حضرتِ صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی  اس پربَہُت سختی سے پابند تھے کہ مسجد میں   حاضِر ہو کر باجماعت نماز پڑھیں   ۔ بلکہ اگر کسی وجہ سے مؤذِّن صاحِب وقتِ مقرَّرہ پر نہ پہنچتے تو خود اذان دیتے ۔  قدیم دولت خانے سے مسجد بِالکل قریب تھی وہاں   تو کوئی دِقّت نہیں   تھی لیکن جب نئے دولت خانے قادِری منزل میں   رہائش پذیر ہوئے تو آس پاس میں   دو مسجدیں   تھیں  ۔ ایک بازار کی مسجد دوسری بڑے بھائی کے مکان کے پاس جو ’’  نوّاکی مسجد ‘‘  کے نا م سے مشہور ہے  ۔ یہ دونوں   مسجدیں   فاصلے پر تھیں  ۔ اس وقت بینائی بھی کمزور ہو چکی تھی ، بازار والی مسجد نِسبتاً قریب تھی مگر راستے میں   بے تکی نالیاں   تھیں  ۔ اسلئے  ’’ نوا کی مسجد  ‘‘ نماز پڑھنے آتے تھے ۔ ایک دَفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی نَماز کے لئے  جا رہے تھے ، راستے میں   ایک کُنواں   تھا، ابھی کچھ اندھیرا تھا اور راستہ بھی ناہموار تھا ، بے خیالی میں  کُنویں   پر چڑھ گئے قریب تھا کہ کنویں   کے غار میں   قدم رکھدیتے ۔ اتنے میں   ایک عورت آگئی اور زور سے چِلائی ! ’’ ارے مولوی صاحِب کُنواں   ہے رُک جاؤ ! ورنہ گر پڑیو ! ‘‘  یہ سنکر حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قدم روک لیا اور پھر کنویں   سے اتر کر مسجِد گئے ۔ اس کے باوُجود مسجد کی حاضِری نہیں   چھوڑی ۔

 بیماری میں   بھی روزہ نہ چھوڑا

            ایک بار رَمَضانُ المبارَک میں   سخت سردی کا بخار چڑھ گیا ۔ اس میں   خوب ٹھنڈ لگتی اور شدید بخار چڑھتا ہے نیز پیاس اتنی شدّت سے لگتی ہے کہ نا قابلِ برداشت ہوجاتی ہے ۔ تقریباً ایک ہفتہ تک اِس بخار میں   گرفتار رہے ۔ ظہر کے بعد خوب سردی چڑھتی پھر بخار آجاتا مگر قربان جایئے ! اس حال میں  بھی کوئی روزہ نہیں   چھوڑا ۔  

زکوٰۃ کی ادائیگی

     شارحِ بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں    : میرے والِدِ ماجِد مرحوم ابتِداء نَوعُمری میں   بہت بڑے تاجِر تھے اور حساب کے ماہِر، صدرالشَّریعہ ان کو بلا کر(زکوٰۃکا) پورا حساب لگواتے ۔ پھر انھیں   سے کپڑے کا تھان منگا کر عورتوں   کے لائق الگ مردوں   بچوں   کے لائق الگ اور سب کے مناسب قطع کراکے تقسیم فرماتے ۔ کوئی سائل کبھی دروازے سے خالی واپس نہ جاتا، بہت بڑے مہمان نواز اورعُموماً مہمان آتے رہتے سب کے شایانِ شان کھانے پینے ، اُٹھنے بیٹھنے اور آرام کا اہتمام فرماتے  ۔ مہمانوں   کے لئے خصوصیت سے ان کی ضروریات کی چیزیں  ہر وقت گھر میں   رکھتے  ۔

دُرودِ رضویہ پڑھنے کا جذبہ

            کتنی ہی مصروفیت ہو نَمازِ فجر کے بعد ایک پارہ کی تلاوت فرماتے اور پھر ایک حزب(باب) دلائلُ الخیرات شریف پڑھتے، اس میں   کبھی ناغہ نہ ہوتا ، اور بعدِنَمازِ جمعہ بلا ناغہ 100بار دُرودِ رضویہ پڑھتے ۔ حتّٰی کہ سفر میں   بھی جمعہ ہوتا تو نمازِ ظہر کے بعد دُرودِ رضویہ نہ چھوڑتے، چلتی ہوئی ٹرین میں  کھڑے ہو کر پڑھتے ۔  ٹرین کے مسافر اِس دیوانگی پر حیرت زدہ ہوتے مگر انہیں   کیا معلوم ۔    ؎

دیوانے کو تحقیر سے دیوانہ نہ کہنا

دیوانہ بہت سوچ کے دیوانہ بنا ہے

اِصلاح کرنے کا انداز

        اولاد اور طلبہ کی عملی تعلیم وتربیت کا بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خُصُوصی خیال فرماتے تھے  ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا تقوٰی وَتَدیُّن(یعنی دین داری) اس اَمر کا مُتَحَمِّل(مُ ۔ تَ ۔ حَم ۔ مِل) ہی نہ تھا کہ کوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے خِلافِ شرع کام کرے اگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علم میں   طَلَبہ یا اولاد کے بارے میں   کوئی ایسی بات آتی جو احکامِ شریعت کے خِلاف ہوتی توچِہرۂ مبارَکہ کا رنگ بدل جاتا تھا، کبھی شدید ترین بَرہمی کبھی زَجروتَوبیخ(ڈانٹ ڈَپَٹ) اور کبھی تَنبِیہ وسزا اور کبھی مَوعِظۂ حَسَنہ غرض جس مقام پر جو طریقہ بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مناسِب خیال فرماتے استِعمال میں   لاتے تھے ۔

خواب میں   آ کر رہنمائی

            خلیلِ ملّت حضرتِ مفتی محمد خلیل خان برکاتی علیہ رحمۃ الباقی فرماتے ہیں  : طَلَبہ کی طرف التِفاتِ تام(یعنی بھر پور توجُّہ)کا اندازہ اس واقِعہ سے لگایئے کہ فقیر کو ایک مرتبہ ایک مسئلہ تحریرکرنے میں   اُلجھن پیش آئی، الحمد للہ میرے استاذِ گرامی، حضرتِ صدرُ الشَّریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی نے خواب میں   تشریف لا کر ارشاد فرمایا :  ’’  بہارِ شریعت کافُلاں   حصہ دیکھ لو  ۔  ‘‘  صبح کو اُٹھ کر بہارِ شریعت اٹھائی اور مسئلہ (مَس ۔ ء ۔ لہ)حل کر لیا ۔  وصال شریف کے بعد فقیر نے خواب میں   دیکھا کہ حضرتِ صدرُ الشَّریعہ   عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی درسِ حدیث دے

Index