تذکرہ صدر الشریعہ

رہے ہیں  ، مسلم شریف سامنے ہے اورشَفاف لباس میں   ملبوس تشریف فرما ہیں   ، مجھ سے فرمایا :  آؤ تم بھی مسلم شریف پڑھ لو ۔

ہر طرف علم و ہنر کاآپ سے دریابہا

آپ کا احسان اے صدر الشَّریعہ کم نہیں

نعت شریف سنتے ہوئے اشک باری

            منقول ہے کہ جب نعت شروع ہوتی تو صدرُالشَّریعہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی مُؤَدَّب بیٹھ کر دونوں   ہاتھ باندھ لیتے اور آنکھیں   بند کر لیتے ۔ انتِہائی وقار و تَمْکِنَت(تَم ۔ کِ ۔ نَت) کے ساتھ پُر سکون ہوجاتے اورپورے اِنہِماک وتوجُّہ سے سنتے ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد آنکھوں   سے سَیلِ اَشک اس طرح جاری ہوجاتے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے  ۔ نعت پڑھنے والا نعت پڑھکر خاموش ہو جاتا اس کے بعد بھی کچھ دیر تک یہی خودفراموشی طاری رہتی ۔

متاعِ عشقِ سرکارِ دو عالم ہو جسے حاصل

کشِش اِس کیلئے کیا ہو گی  دنیا کے خزینے میں

حضرتِ شاہِ عالم کا تخت

            حضرتِ سیِّدُنا شاہِ عالم علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الاکرم بَہُت بڑے عالمِ دین اور پائے کے ولیُّ اللہ تھے ۔ مدینۃ الاولیا احمد آباد شریف(گجرات الھند) میں  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نہایت ہی لگن کے ساتھ علمِ دین کی تعلیم دیتے تھے ۔ ایک بار بیمار ہوکر صاحبِ فَراش ہوگئے اور پڑھانے کی چُھٹیاں   ہوگئیں  ۔ جس کا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بے حد افسوس تھا ۔  تقریباً چالیس دن کے بعد صحّت یاب ہوئے اور مدرَسے میں   تشریف لاکر حسبِ معمول اپنے تخت پر تشریف فرما ہوئے ۔  چالیس دن پہلے جہاں   سبق چھوڑا تھا وَہیں   سے پڑھانا شروع کیا ۔ طَلَبہ نےمُتَعَجِّب ہوکر عرض کی :  حضور :  آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ مضمون تو بَہت پہلے پڑھادیا ہے گزَشتہ کل تو آپ   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فُلاں   سبق پڑھایا تھا ! یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فورًا مُراقِب ہوئے ۔  اُسی وقت سرکارِ مدینہ ، قرارِقلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحِبِ معطَّر پسینہ، باعثِ نُزُولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زِیارت ہوئی ۔  سرکا ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لبہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، مُشکبار پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں   ترتیب پائے :   ’’ شاہِ عالم ! تمہیں   اپنے اَسباق رہ جانے کا بہت افسوس تھا لہٰذا تمہاری جگہ تمہاری صورت میں   تخت پر بیٹھ کر میں   روزانہ سبق پڑھادیا  کرتا تھا ۔  ‘‘  

            جس تخت پر سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہواکرتے تھے اُس پر اب حضرتِ قبلہ سیِّدُنا شاہِ عالم علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الاکرم کس طرح بیٹھ سکتے تھے لہٰذا فورًا تخت پر سے اُٹھ گئے ۔  تخت کو یہاں   کی مسجِد میں  مُعَلَّق کردیا گیا ۔  اس کے بعد حضرتِ سیِّدنا شاہِ عالم علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الاکرمکیلئے دوسرا تخت بنایا گیا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وِصال کے بعد اُس تخت کو بھی یہاں   مُعلّق کردیا گیا ۔ اِس مقام پر دُعاقَبول ہوتی ہے ۔

مدینے کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں   

            خلیفۂ صدرِ شریعت، پیرِطریقت حضرتِ علاّمہ مولیٰنا حافظ قاری محمد مُصلحُ الدّین صِدّیقی القادِری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی سے میں   (سگِ مدینہ عفی عنہ)نے سنا ہے، وہ فرماتے تھے : مُصنّفِ بہارِ شریعت حضرتِ صدرُ الشّریعۃ مولیٰنا محمد امجد علی اعظمی صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہمراہ مجھے مدینۃ الاولیا احمدآباد شریف (ھند)میں   حضرت سیّد نا شاہ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دربار میں   حاضِری کی سعادت حاصِل ہوئی، ان دونوں   تختوں   کے نیچے حاضرہوئے اوراپنے اپنے دِل کی دعائیں   کرکے جب فارِغ ہوئے تو میں   نے اپنے پیرومرشِد حضرتِ صدرُالشریعہ  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَ بِّ الْوَرٰی سے عرض کی : حُضور ! آپ نے کیا دعا مانگی؟ فرمایا : ’’ہر سال حج نصیب ہونے کی ۔  ‘‘  میں   سمجھا حضرت کی دُعا کا مَنشا یِہی ہوگا کہ جب تک زِندہ رہوں   حج کی سعادت ملے ۔ لیکن یہ دُعا بھی خوب قبول ہوئی کہ اُسی سال حج کا قَصدفرمایا ۔  سفینۂ مدینہ میں   سَوار ہونے کیلئے اپنے وطن مدینۃ العلماء گھوسی( ضِلع اعظم گڑھ) سے بمبئی تشریف لائے  ۔ یہاں   آپ کو نُمونیہ ہوگیا اورسفینے میں   سوار ہونے سے قبل ہی  ۱۳۶۷ کے ذیقعدۃُ الحرام کی دوسری شب 12 بجکر 26 مِنَٹ پر بمطابِق6 ستمبر 1948 کوآپ وفات پاگئے ۔

مدینے کا مسافِر ہند سے پہنچا مدینے میں                             قدم رکھنے کی بھی نوبت نہ آئی تھی سفینے میں

            سبحٰنَ اللّٰہمبارَک  تخت کے تحت مانگی ہوئی  دُعا کچھ ایسی قبول ہوئی کہ اب آپ  اِن شَاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  قِیامت تک حج کا ثواب حاصِل کرتے رہیں   گے ۔  خود حضرتِ صدرالشّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب بہارِ شریعت حصّہ6 صَفْحَہ 5پر یہ حدیثِ پاک نقل کی ہے : جو حج کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا تو قِیامت تک اُس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا اُس کیلئے قِیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو جہاد میں   گیا اور فوت ہوگیا اس کیلئے قِیامت تک غازی کا ثواب لکھا جائے گا ۔        (مسند أبي یعلی ج۵، ص۴۴۱حدیث ۶۳۲۷دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مادَّۂ تاریخ

درجِ ذیل آیتِ مبارَکہ آپ کی وفات کامادَّۂ تاریخ ہے ۔ (پ ۱۴، الحجر۴۵)

 اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ(۴۵)

۷ ۶ ۳ ۱ ھ

 

Index