صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک عورت کی نَماز ِجنازہ میں ایک کفن چور بھی شامِل ہو گیا اور قبرِستان ساتھ جا کر اُس نے قَبْر کا پتا محفوظ کر لیا۔ جب رات ہوئی تو اس نے کفن چُرانے کیلئے قَبْر کھود ڈالی۔ یکا یک مرحومہ بول اُٹھی: سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک مَغْفُور (یعنی بخشِش کا حقدار ) شخص مَغْفُور ( یعنی بخشی ہوئی) عورت کا کفن چُراتا ہے! سُن، اللہ تعالیٰ نے میری بھی مغفرت کر دی اور اُن تمام لوگوں کی بھی جنہوں نے میرے جنازے کی نَماز پڑھی اورتُو بھی اُن میں شریک تھا ۔ (یہ سُن کر اُس نے فوراً قَبر پر مِٹّی ڈال دی اور سچّے دل سے تائب ہو گیا) (شُعَبُ الْاِیمان ج۷ص۸رقم۹۲۶۱) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! نیک بندوں کی نَمازِ جنازہ میں حاضِری کس قَدَر سعادتمندی کی بات ہے۔ جب بھی موقع ملے بلکہ موقع نکال کر مسلمانوں کے جنازوں میں شرکت کرتے رَہنا چاہئے، ہو سکتا ہے کسی نیک بندے کے جنازے میں شُمُولیَّت ہمارے لئے سامانِ مغفِرت بن جائے۔ خدائےرحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت پر قربان کہ جب وہ کسی مرنے والے کی مغفِرت فرما دیتا ہے تو اُس کے جنازے کا ساتھ دینے والوں کو بھی بَخْشدیتا ہے۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھما سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ، قرارِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا: ’’ بندۂ مؤمِن کو مرنے کے بعدسب سے پہلی جزا یہ دی جائے گی کہ اس کے تمام شرکائے جنازہ کی بخشِش کر دی جا ئے گی۔ ‘‘ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۴ص۱۷۸حدیث۱۳)
سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار، شَہَنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کسی نے پوچھا : ومِن جب قَبْر میں داخِل ہوتا ہے تو اُس کو سب سے پہلا تحفہکیا دیا جاتا ہے؟ توارشادفرمایا: اُس کی نَمازِ جنازہ پڑھنے والوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۷ص۸رقم۹۲۵۷)
میٹھے میٹھے آقا مکّی مدنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عافیّت نشان ہے: جب کوئی جنّتی شخص فوت ہو جاتا ہے، تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ حیافرماتا ہے کہ ان لوگوں کو عذاب دے جو اس کاجنازہ لیکر چلے اور جو اِس کے پیچھے چلے اور جنہوں نے اِس کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۱ص۲۸۲حدیث۱۱۰۸)
حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ خداوندیعَزَّ وَجَلَّمیں عَرض کی : یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس نے مَحض تیری رِضا کے لئے جنازے کا ساتھ دیا، اُس کی جزا کیا ہے؟ اللہ تَعَالٰینے فرمایا: جس دن وہ مرے گا تو فِرِشتے اُس کے جنازے کے ہمراہ چلیں گے اور میں اس کی مغفِرت کروں گا ۔ (شَرْحُ الصُّدُورص۹۷)
حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے:جو شخص (ایمان کا تقاضا سمجھ کر اور حُصولِ ثواب کی نیّت سے) اپنے گھر سے جنازے کے ساتھ چلے، نَماز جنازہ پڑھے اور دَفن ہونے تک جنازے کے ساتھ رہے اُس کے لیے دو قِیراط ثواب ہے جس میں سے ہرقِیراط اُحُد ( پہاڑ) کے برابر ہے اور جو شخص صِرف جنازے کی نَماز پڑھ کر واپَس آ جائے تو اس کے لیے ایک قِیراط ثواب ہے۔ ( مُسلِم