نمازِ جَنازہ کا طریقہ (حنفی)

کیا شوہر بیوی کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے؟

       شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے،  قَبْر میں بھی اُتار سکتا ہے اورمُنہ بھی دیکھ سکتا ہے۔ صِرف غسل دینے اوربِلا حائل بدن کو چھُونے کی مُمانَعَت ہے۔ عورَت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۱۲، ۸۱۳)

مُرتَد کی نَمازِ جنازہ کا حُکمِ شَرعی

    مُرتد اور کافر کے جنازے کا ایک ہی حکم ہے۔مذہب تبدیل کرکے عیسائی  (کرسچین)  ہونے والے کا جنازہ پڑھنے والے کے بارے میں کئے گئے ایک سُوال کا جواب دیتے ہوئے سیِّدی اعلیٰ حضرت،  امام اہلسنّت،  مجدددین وملّت،  حضرت علامہ مولاناشاہ امام احمد رضا خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰنفتاوٰی رضویہ جلد 9صَفْحَہ 170پرارشاد فرماتے ہیں : اگر بہ ثُبوتِ شَرعی ثابِت ہو کہ میِّت  ’’ عِیاذًا بِاللہ ‘‘   (یعنی خدا کی پناہ)  تبدیلِ مذہب کرکے عیسائی  (کرسچین)  ہوچکا تھا تو بیشک اُس کے جنازے کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اِس کی تَجہیز وتکفین سب حرامِ قَطعی تھی۔قالَ اللہُ  (اللہ تَعَالٰیفرماتا ہے) :

وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-  (پ۱۰، التوبہ:۸۴)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ان میں سے کسی کی میِّت پر کبھی نَماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قَبْر پر کھڑے ہونا۔

          مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت  (یعنی کرسچین ہونے) پرمُطَّلَع نہ تھے اور بربِنائے علمِ سابِق (یعنی پچھلی معلومات کے سبب)  اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس کی تجہیز وتکفین و نَماز تک اُن کے نزدیک اس شخص کا نصرانی (یعنی کرسچین)  ہوجانا ثابِت ہوا،  توان اَفعال میں وہ اب بھی معذور وبے قُصُور ہیں کہ جب اُن کی دانِست (یعنی معلومات)  میں وہ مسلمان تھا،  اُن پر یہ اَفعال بجالانے بَزُعْمِ خود شَرعاً لازم تھے،  ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبردار تھے پھرنَماز وتجہیز وتکفین کے مُرتکِب  (مُر۔تَ ۔ کِب )  ہوئے قَطعاً سخت گنہگار اور وبالِ کبیرہ میں گرفتار ہوئے،  جب تک توبہ نہ کریں نَماز ان کے پیچھے مکروہ۔مگرمُعامَلۂ مُرتَدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کافر نہ ہوں گے۔ ہماری شَرعِ مُطَہَّرصِراطِ مُستقیم ہے،  اِفراط وتَفریط  (یعنی حدِّ اعتِدال سے بڑھانا گھٹانا)  کسی بات میں پسند نہیں فرماتی،  البتّہ اگر ثابِت ہو جائے کہ اُنہوں نے اُسے نصرانی جان کر نہ صِرف بوجِہ حَماقت وجَہالت کسی غَرَضِ دُنیوی کی نیّت سے بلکہ خوداِسے بوجہِ نصرانیّت مستحقِ تعظیم وقابلِ تجہیز وتکفین ونَمازِ جنازہ تصوُّر کیا تو بیشک جس جس کا ایسا خیال ہوگا وہ سب بھی کافِر ومُرتَد ہیں اور ان سے وُہی مُعامَلہ برتنا واجِب جو مُرتدین سے برتا جائے۔  (فتاوٰی رضویہ )

اللہ تَبارکَ وَتعالٰی پارہ10 سُورَۃُ  التوبۃکی آیت نمبر84میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ (۸۴)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ان میں سے کسی کی میِّت پر کبھی نَماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قَبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق  (کفر)  ہی میں مر گئے۔

          صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولاناسیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھادِیاس آیت کے تَحت فرماتے ہیں :اس آیت سے ثابِت ہوا کہ کافِر کے جنازے کی نَماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن وزیارت کے لیے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے۔ (خَزا ئِنُ الْعِرفان ص۳۷۶ )    

          حضرتِ سیِّدُناجابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھماسے روایت ہے کہ سردارِ مکۂ مکرَّمہ،  سرکارِ مدینۂ منوّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشاد فرمایا: اگر وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ،   مر جائیں تو جنازے میں حاضِر نہ ہو ۔  ( اِبنِ ماجہ ج۱ص۷۰حدیث۹۲)

 ’’ مدینہ ‘‘  کے پانچ حُرُوف کی نسبت سے جنازے کے مُتَعلِّق پانچ مَدَنی پھول

 ’’  فُلاں میری نَماز پڑھائے ‘‘  ایسی وصیت کا حکم{۱}میِّت نے وصیّت کی تھی کہ میری نَماز فُلاں پڑھائے یا مجھے فُلاں شخص غسل دے تو یہ وصیّت باطِل ہے یعنی اِس وصیّت سے  (مرنے والے کے)  ولی  (یعنی سرپرست)  کا حق جاتا نہ رہے گا،  ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اُس سے پڑھوا دے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۳۷، عالمگیری ج۱ص۱۶۳ وغیرہ) اگر کسی متّقی بُزُرگ یا عالِم کے بارے میں وصیّت کی ہو تو وُرَثاء کو چاہیے کہ اِس پر عمل کریں ۔

 

Index