ہاتھوں ہاتھ پُھوپھی سے صُلح کرلی

لیتے ہیں  ، ان لوگوں   کے لیے بیان کردہ حدیثِ پاک میں   عبرت ہی عبرت ہے ۔ میری مَدَنی اِلتجا ہے کہ اگر آپ کی کسی رِشتے دار سے ناراضی ہے تو اگرچِہ رِشتے دارہی کاقصور ہوصلح کیلئے خود پہل کیجئے اورخود آگے بڑھ کر خندہ پیشانی کے ساتھ اُس سے مل کر تعلُّقات سنوار لیجئے۔

قطعِ رِحمی کرنے والا مغفِرت سے محروم

                        فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:۔ پیر اور جمعرات کو اللہ  تعالٰی کے حضور لوگوں   کے اعمال پیش ہوتے ہیں  ،، تو اللہ  عَزَّوَجَلَّآپس میں   عداوت رکھنے اور قطعِ رِحمی کرنے والوں  کے علاوہ سب کی مغفِرت فرما دیتا ہے۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ص۱۶۷حدیث۴۰۹ )

امانت اور صلۂ رِحمی کی شکایت پر پکڑ ہو گی

      فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:’’امانت اور صِلۂ رِحمی کو بھیجا جائے گا تووہ پل صراط کے دائیں   اور بائیں   جانب کھڑی ہو جائیں   گی۔‘‘(مُسلِم ص۱۲۷حدیث۳۲۹) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں  : یہ ان دونوں   وصفوں   کی انتہائی تعظیم ہوگی کہ ان دونوں   کو پل صراط کے آس پاس کھڑا کیا جاوے گا شفاعت اور شکایت کے لیے، کہ ان کی شفاعت پرنجات ،ان کی شکایت پر پکڑ ہوگی۔ اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ انسان امانت داری اور رشتے داروں   کے حقوق کی ادائیگی ضرور اختیار کرے کہ ان دونوں   میں   کوتاہی کرنے پر سخت پکڑ ہے مگر ان کی شفاعت پر دوزخ سے نجات ہے ان کی شکایت پر وہاں   گرتا ہے۔                                                                                     (مراٰۃ المناجیح ج ۷ص۴۲۴)

تعلّقات توڑنے کی سزا(حکایت)

          حضرتِ سیِّدُنا فقیہابواللَّیث سمرقندیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ  الْقَوِی’’ تَنبیہُ الغافِلین‘‘ میں   نقل کرتے ہیں  ،حضرت سیِّدنا یحییٰ بن سُلَیم رَحْمَۃُاللہ  تعالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :  مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہ  شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں   ایک نیک شخص خراسان کا رہنے والا تھا، لوگ اس کے پاس اپنی اَمانتیں   رکھتے تھے، ایک شخص اس کے پاس دس ہزاراشرفیاں   اَمانت رکھوا کر اپنی کسی ضَرورت سے سفر میں   چلا گیا،جب وہ واپس آیاتو خراسانی فوت ہوچکا تھا، اس کے اہل وعیال سے اپنی

    اَمانت کا حال پوچھا: توانہوں   نے لا علمی ظاہر کی ،اَمانت رکھنے والے نے علمائے     مکۂ مکرمہ سے پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ انہوں   نے کہا:’’ ہم اُمید کرتے ہیں   کہ  وہ خراسانی جنتی ہوگا، تم ایسا کرو کہ آدھی یا تہائی رات گزرنے کے بعدز مزم کے کنویں  پر جاکراُس کا نام لے کرآواز دینااور اُس سے پوچھنا۔‘‘ اس نے تین راتیں   ایسا ہی کیا،وہاں   سے کوئی جواب نہ ملا، اُس نے پھر جا کر ان علماء کرام کوبتایا، انہوں   نے  ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ‘‘ پڑھ کر کہا: ’’ہمیں   ڈر ہے کہ وہ شاید جنتی نہ ہو، ‘‘تم یمن چلے جاؤ وہاں   برہوت نامی وادی میں  ایک کنواں  ہے،اس پر پہنچ کر اسی طرح آواز دو، اس نے ایسا ہی کیا تو پہلی ہی آوازمیں   جواب ملا کہ میں   نے اس کو گھر میں   فلاں   جگہ دفن کیا ہے اور میں   نے اپنے گھر والوں   کے پاس بھی امانت کو نہیں   رکھا ، میرے لڑکے کے پاس جاؤ اور اس جگہ کو کھودو تمہیں   مل جائے گاچنانچِہ اس نے ایسا ہی کیا ور مال مل گیا۔میں   نے اس سے دریافت کیا کہ تُو تو بہت نیک آدَمی تھاتو یہاں   پہنچ گیا؟ وہ بولا: میرے کچھ رشتے دار خراسان میں   تھے جن سے میں   نے قطعِ تعلّق (یعنی رشتہ توڑ)کر رکھا تھا اسی حالت میں   میری موت آگئی اس سبب سےاللہ  عَزَّوَجَلَّ نے مجھے یہ سزادی اور اس مقام پرپہنچادیا۔  (تنبیہ الغافلین ص۷۲ مُلَخّصاً)

کن رشتے داروں   سے صِلہ واجب ہے؟

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ1196 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد3 صَفْحَہ 558تا559پرہے:جن رشتے والوں    کے ساتھ صِلہ (رِحم) واجِب ہے وہ کون ہیں  ؟ بعض علما نے فرمایا: وہ ذُو رِحم محرم ہیں   اور بعض نے فرمایا: اس سے مراد ذُو رِحم ہیں  ،محرم ہوں   یا نہ ہوں  ۔ اور ظاہر یہی قولِ دُوُم ہے، احادیث میں   مُطلَقاً (یعنی بغیر کسی قید کے)رشتے والوں   کے ساتھ صِلہ(یعنی سلوک) کرنے کا حکم آتا ہے، قرآنِ مجید میں   مُطلَقاً (یعنی بلا قید)ذَوِی القربیٰ (یعنی قرابت والے) فرمایا گیا مگر یہ بات ضرور ہے کہ رِشتے میں   چونکہ مختلف

Index