دَرَجات ہیں (اسی طرح) صِلَۂ رِحم (یعنی رشتے داروں سے حسنِ سلوک) کے دَرَجات میں بھی تفاوُت(یعنی فرق) ہوتا ہے۔ والِدَین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے، ان کے بعد ذُورِحم مَحرم کا،( یعنی وہ رشتے دار جن سے نسبی رشتہ ہونے کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہو )ان کے بعد بَقِیَّہ رشتے والوں کا علیٰ قدر ِمراتب۔ (یعنی رشتے میں نزدیکی کی ترتیب کے مطابق) (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)
’’ذُو رِحم مَحرم‘‘ اور ’’ ذُو رحم ‘‘سے مراد؟
مُفَسِّرشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت، حضر ت ِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت 83 وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى
’’ ترجمۂ کنزالایمان:اورماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے۔‘‘کے تحت’’ تفسیر نعیمی‘‘ میں لکھتے ہیں : اور قربٰی بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہلِ قرابت کے ساتھ احسان کرو ،چونکہ اہلِ قرابت کا رشتہ ماں باپ کے ذرِیعے سے ہوتا ہے اور ان کا اِحسان بھی ماں باپ کے مقابلے میں کم ہے اِس لیے ان کا حق بھی ماں باپ کے بعد ہے، اس جگہ بھی چند ہدایتیں ہیں :پہلی ہدایت:ذِی الْقُرْبٰی وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ بذریعے ماں باپ کے ہو جسے ’’ذِی رِحم ‘‘بھی کہتے ہیں ، یہ تین طرح کے ہیں : ایک باپ کے قرابت دار جیسے دادا، دادی ، چچا، پھوپھی وغیرہ ،دوسرے ماں کے جیسے نانا، نانی، ماموں ، خالہ، اَخیافی(یعنی جن کا باپ الگ الگ ہو اور ماں ایک ہو ایسے بھائی اور بہن کا) بھائی وغیرہ ، تیسرے دونوں کے قرابت دار جیسے حقیقی بھائی بہن۔ ان میں سے جس کا رشتہ قوی ہوگااس کا حق مقدم۔ دوسری ہدایت: اہلِ قرابت دو قسم کے ہیں ایک وہ جن سے نکاح حرام ہے،انہیں ذِی رِحم محرم(یعنی ایسا قریبی رشتے دار کہ اگر ان میں سے جس کسی کو بھی مرد اور دوسرے کو عورت فرض کیا جائے تو نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو جیسے باپ ،ماں ، بیٹا ،بیٹی، بھائی ،بہن، چچا ،پھوپھی ،ماموں ،خالہ، بھانجا ،بھانجی وغیرہ) کہتے ہیں ، جیسے چچا، پھوپھی، ماموں ، خالہ وغیرہ ۔ضرورت کے وقت ان کی خدمت کرنا فرض ہے نہ کرنے والا گنہگار ہوگا۔ دوسرے وہ جن سے نکاح حلال جیسے خالہ ،ماموں چچا کی اولاد ان کے ساتھ احسان و سلوک کرناسُنّتِ مُؤکّدہ ہے اوربہت ثواب لیکن ہر قرابت دار بلکہ سارے مسلمانوں سے اچھے اَخلاق کے ساتھ پیش آنا ضروری اور ان کو ایذاء پہنچانی حرام۔ ( تفسیر عزیزی )تیسری ہدایت : سسرالی دور کے رشتے دار ذِی رِحم نہیں ، ہاں ان میں سے بعض محرم ہیں جیسے ساس اور دودھ کی ماں ، بعض محرم بھی نہیں ، ان کے بھی حقوق ہیں یہاں تک کہ پڑوسی کے بھی حق ہیں مگر یہ لوگ اس آیت میں داخل نہیں کیونکہ یہاں رِحمی اور رشتے والے مراد ہیں ۔(تفسیر نعیمی ج۱ص ۴۴۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’حُسنِ سُلوک‘‘ کے سات حُرُوف کی نسبت سے صِلۂ رِحمی کے7 مَدَنی پھول
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1197 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد3 صَفْحَہ 559تا560پرسے ’’حُسنِ سُلوک‘‘ کے سات حُرُوف کی نسبت سے سات مَدَنی پھول قبول فرمایئے:
)1( کس رشتے دار سے کیا برتاؤ کرے
احادیث میں مُطلَقاً (یعنی بغیر کسی قید کے)رشتے والوں کے ساتھ صِلہ(یعنی سُلوک) کرنے کا حکم آتا ہے، قرآنِ مجید میں مُطلَقاً (یعنی بِلا قید)ذوِی القربیٰ (یعنی قرابت والے) فرمایا گیا مگر یہ بات ضَرور ہے کہ رِشتے میں چُونکہ مختلف دَرَجات ہیں (اسی طرح) صِلَۂ رِحم (یعنی رشتے داروں سے حسنِ سلوک) کے دَرَجات میں بھی تفاوت(یعنی فرق) ہوتا ہے۔ والِدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے، ان کے بعد ذُورِحم محرم کا،( یعنی وہ رشتے دار جن سے نسبی رشتہ ہونے کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہو ) ان کے بعد بَقِیَّہ رشتے والوں کا علیٰ قدر ِمراتب۔ (یعنی رشتے میں نزدیکی کی ترتیب کے مطابق)(رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)