ہاتھوں ہاتھ پُھوپھی سے صُلح کرلی

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مذکورہ ساتوں   مَدَنی پھول نہایت توجُّہ کے قابل ہیں  ، بالخصوص ساتویں   مَدَنی پھول  جس میں   ’’ ادلے بدلے‘‘ کا ذِکر ہے اس کے بارے میں   عرض ہے کہ آج کل عموماً یہی ’’ ادلا بَدلا ‘‘ہورہا ہے۔ ایک رشتے دار اگر اِس کو شادی کی دعوت دیتا ہے جبھی یہ اُس کو دیتا ہے اگر وہ نہ دے تو یہ بھی نہیں   دیتا۔اگر اُس ایک نے اِس کو زیادہ افراد کی دعوت دی اور یہ اگر اُس کو کم افراد کی دعوت دے تو اِس کا ٹھیک ٹھاک نوٹس لیا جاتا، خوب تنقیدیں   اورغیبتیں   کی جاتی ہیں  ۔اِسی طرح جو رِشتے دار اِس کے یہاں   کسی تقریب میں   شرکت نہیں   کرتا تویہ اُس کے یہاں   ہونے والی تقریب کابائیکاٹ کر دیتاہے اوریوں   فاصلے مزید بڑھائے جاتے ہیں  ۔حالانکہ کوئی ہمارے یہاں  شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں   اچھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں  ، مثلا وہ نہ آنے والا بیمار ہو گیا ہو گا،بھول گیا ہو گا، ضروری کام آپڑ اہو گا،یا کوئی سخت مجبوری ہو گی جس کی وضاحت اس کے لئے دشوار ہو گی وغیرہ۔ وہ اپنی غیر حاضری کا سبب بتائے یا نہ بتائے،ہمیں   حسنِ ظن رکھ کر ثواب کمانا اور جنت میں   جانے کا سامان کرتے رہنا چاہئے۔ چُنانچِہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ    حُسْنِ الْعِبَادَۃِ۔یعنی حسنِ ظن عمدہ عبادت سے ہے ۔            (ابوداوٗد  ج۴ ص۳۸۸ حدیث ۴۹۹۳)     

         مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناِس حدیثِ پاک کے مختلف مطالب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں   :یعنی مسلمانوں   سے اچھا گمان کرنا ، ان پر بدگمانی نہ کرنا یہ بھی اچھی عبادات میں   سے ایک عبادت ہے ۔ (مِراٰۃُ المَناجِیح ج۶ ص۶۲۱)

جنت کا مَحَل اس کو ملے گا جو۔۔۔

        بالفرض ہمارا رشتے دار سستی کے سبب یا کسی بھی وجہ سے جان بوجھ کر ہمارے یہاں   نہیں   آیا یا ہمیں   اپنے یہا ں   مَدعو نہیں   کیا بلکہ اس نے کھلَّم کھلا ہمارے ساتھ بد سلوکی کی تب بھی ہمیں   بڑا حوصلہ رکھتے ہوئے تعلُّقات برقرار رکھنے چاہئیں  ، حضرت سیِّدُنا اُبَی بِن کَعبرَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سلطانِ دوجہان، شَہَنشاہِ کون ومکان، رَحمتِ عالمیانصَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عظیم الشان ہے:  جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے(جنت میں  ) محل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بلند کیے جائیں  ، اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قطعِ تعلُّق کرے یہ اُس سے ناطہ (یعنی تعلُّق) جوڑے (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۳ ص۱۲حدیث ۳۲۱۵)

دشمنی چھپانے والے رشتے دار کو صَدَقہ دینا افضل ترین ہے

           بہر حال کوئی ہمارے ساتھ حسنِ سُلوک کرے یا نہ کرے ہمیں   حسنِ سُلوک جاری رکھنا چاہئے۔ ’’مُسندِ اِمام احمدبن حنبل‘‘ کی حدیثِ پاک میں   ہے:اِنَّ اَفْضَلَ  الصَّدَقَۃِالصَّدَقَۃُ عَلٰی ذِی الرَّحِمِ الْکَاشِح۔ یعنی بے شک  افضل ترین صَدقہ وہ ہے جو دشمنی چھپانے والے رشتے دار پر کیا جائے۔

  (مُسندِ اِمام احمدبن حنبل  ج۹ص۱۳۸حدیث۲۳۵۸۹)

رشتے دار سے جب سخت دُکھ پہنچا

امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصِدِّیق رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُکواپنے خالہ زاد بھائی غریب ونادار ومہاجر اور بَدری صحابی حضرتِ سیِّدُنا مسطح رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُجن کا آپ خرچ اٹھاتے تھے ان سے سخت رنج پہنچا اور وہ یہ کہ اُنہوں   نے آپرَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُکی پیاری بیٹی یعنی اُمُّ الْمُؤمِنین حضرتِ سیِّدَتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہَاپر تہمت لگانے والوں   کے ساتھ موافقت کی تھی، اِس پر آپ(رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ)نے خرچ نہ دینے کی قسم کھائی۔ اِس پرپارہ18 سُوْرَۃُ النُّوْرکی آیت نمبر 22نازِل ہوئی۔وہ آیتِ مبارَکہ یہ ہے:

وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳚ-وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور قسم نہ کھائیں   وہ جو تم میں   فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں   قرابت والوں   اور مسکینوں   اور اللہ  کی راہ میں   ہجرت کرنے والوں   کو دینے کی اور چاہئے کہ معاف کریں   اور درگزریں   کیا تم اسے دوست نہیں   رکھتے کہاللہ  تمہاری بخشش کرے اوراللہ  بخشنے والا مہربان ہے ۔

          جب یہ آیت سید عالمصَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے پڑھی تو حضرتِ سیِّدنا ابوبکر صدّیق رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: بے شک میری آرزو

Index