دَفْن سے پہلے ہی کرے (جوہرہ ص۱۴۱)٭ تعزیت کا وَقْت موت سے تین دن تک ہے، اِس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اُسے عِلْم نہیں تو بعد میں حَرَج نہیں (ایضاً ، رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص۱۷۷)٭ (تعزیت کرنے والا) عاجِزی وانکساری اور رنج وغم کا اظہار کرے، گفتگو کم کرے اور مسکرانے سے بچے کہ (ایسے موقع پر) مسکرانا (دلوں میں ) بغض و کینہ پیدا کرتا ہے (آدابِ دین ص۳۵)٭ مستحب یہ ہے کہ میِّت کے تمام اَقارِب کو تعزیت کریں ، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کو مگر عورت کو اُس کے مَحارِم ہی تعزیت کریں ۔ (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۲ ) تعزیت میں یہ کہےاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اس مصیبت پر اجرِ عظیم عطا فرمائے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّمرحوم کی مغفِرت فرمائے۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان لفظوں سے تعزیت فرمائی: اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخذَ وَلَہُ مَااَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ (ترجمہ:)خدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا اور جو دیا اور اُس کے نزدیک ہر چیز ایک مقّررہ وقت تک ہے، لہٰذا صبر کرو اور ثواب کی اُمّید رکھو (بُخاری ج۱ص۴۳۴حدیث۱۲۸۴) ٭ میِّت کے اَعِزّہ (یعنی عزیزوں ) کا گھر میں بیٹھنا کہ لوگ اُن کی تعزیت کیلئے آئیں اس میں حَرَج نہیں اور مکان کے درواز ے پر یا شارِع عام (یعنی عام راستے )پر بچھونے(یا دری وغیرہ) بچھا کر بیٹھنا بُری بات ہے (عالمگیری ج۱ ص ۱۶۷ ، رَدُّالْمُختار ج۳ ص۱۷۷)٭ قَبْر کے قریب تعزیت کرنا مکروہِ (تنزیہی ) ہے ( دُرِّمختار ج۳ ص۱۷۷)بعض قوموں میں وفات کے بعد آنے والی پہلی شبِ براء ت یا پہلی عید کے موقع پر عزیز واَقرِبا ء اہلِ میّت کے گھرتعزیت کیلئے اکٹّھے ہوتے ہیں یہ رسم غَلَط ہے ، ہاں جو کسی وجہ سے تعزیت نہ کر سکا تھا وہ عید کے دن تعزیت کرے تو حرج نہیں اِسی طرح پہلی بقر عید پر جن اہلِ میّت پر قربانی واجب ہو انہیں قربانی کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوگ کے ایّام گزر جانے کے باوُجُود عید آنے پر میِّت کا سوگ (غم) کرنا یا سوگ کے سبب عمدہ لباس وغیرہ نہ پہنناناجائز و گناہ ہے۔البتّہ ویسے ہی کوئی عمدہ لباس نہ پہنے تو گناہ نہیں ٭ جو ایک بار تعزیت کر آیا اُسے دوبارہ تعزیت کے لیے جانا مکروہ ہے ( دُرِّمُختار ج۳ ص۱۷۷)٭ اگر تعزیت کے لئے عورَتیں جَمْعْ ہوں کہ نوحہ کریں تو انہیں کھانا نہ دیا جائے کہ گناہ پر مدد دینا ہے (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۳ ) ٭ نوحہ یعنی میّت کے اَوصاف مبالَغہ کے ساتھ(یعنی بڑھا چڑھا کرخوبیاں ) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو ’’ بَین ‘‘ کہتے ہیں بِالاِْجماع حرام ہے۔ یوہیں واوَیلا وامُصیبتا (یعنی ہائے مصیبت ) کہہ کے چلّانا (ایضاً ص ۸۵۴) ٭ اَطِبّاء (یعنی طبیب) کہتے ہیں کہ(جو اپنے عزیز کی موت پر سخت صدمے سے دو چار ہواُس کے) میِّت پر بالکل نہ رونے سے سخت بیماری پیدا ہوجاتی ہے ، آنسو بہنے سے دل کی گرمی نکل جاتی ہے ، اِس لیے اِس(بغیر نوحہ ) رونے سے ہر گز مَنْعْ نہ کیا جائے (مراٰۃ المناجیح ج۲ ص۵۰۱)٭ مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّانفرماتے ہیں : تعزیَت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اُس غمزدہ کی تسلّی ہوجائے، فقیر کا تجرِبہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقِعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں توبَہُت تسلّی ہوتی ہے۔ تمام تعزیتیں ہی بہتر ہیں مگر بچّے کی وفات پر(مَحارِم کا اُس کی) ماں کو تسلی دینا بَہُت ثواب ہے۔ (مُلَخص ازمراٰۃ المناجیح ج۲ ص ۵۰۷)
’’ اجتِماعِ ذکر ونعت ‘‘ برائے ایصالِ ثواب
دعوت اسلامی کے تمام ذِمّے داروں کی خدمتوں میں مَدَنی التِجا ہے کہ آپ کے یہاں کسی اسلامی بھائی کو مَرَض یامصیبت (مَثَلاً بچّہ بیمار ہونا، نوکری چھوٹنا، چوری یا ڈکیتی ہونا، اسکوٹر یا موبائل فون چھن جانا، حادِثہ پیش آنا، کاروبار میں نقصان ہو جانا، عمارَت گر جانا، آگ لگ جانا، کسی کی وفات ہو جانا وغیرہ کوئی سا بھی صدمہ) پہنچے ، ثواب کی نیّت سے اُس دُکھیارے کی دِلجوئی کر کے ثوابِ عظیم کے حقدار بنئے کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی