اگردعوتِ اسلامی کے ذمّے داران خصُوصی توجُّہ فرماکر اس مَدَنی کام کا بِیڑا اُٹھا لیں تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ َّ ہر طرف سنّتوں کی بہار آجائے۔ اگر آپ سب نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کی خاطر بَصَمِیمِ قلب مَدَنی اِنعامات پر عمل شُروع کردیا تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّجیتے جی اور وہ بھی جلد ہی اس کی بَرَکتیں دیکھ لیں گے، آپ کواِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّسُکونِ قَلْب نصیب ہوگا، باطِن کی صفائی ہوگی، خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ وعشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سَوتے ( یعنی چشمے )آپکے دل سے پھوٹیں گے ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کے عَلاقے میں دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام حیرت انگیز حد تک بڑھ جائے گا۔ چُونکہ ’’ مَدَنی اِنْعامات ‘‘ پر عمل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے حُصول کا ذَرِیعہ ہے ، لہٰذا شیطان آپ کو بَہُت سُستی دلائے گا، طرح طرح کے حیلے بہانے سُجھا ئے گا، آپ کا دل نہیں لگ پائے گا، مگر آپ ہمّت مت ہاریئے ۔اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّدل بھی لگ ہی جائیگا۔
اے رضاؔ ہر کام کا اک وَقْت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا
(حدائقِ بخشش شریف)
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابوحامد محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں : حضـرت سیِّدُنا ابو عثمان مغربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی سے اُن کے ایک مُرید نے عرض کی: یا سیِّدی! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کی رَغبت کے بِغیر بھی میری زَبان سے ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّجاری رَہتا ہے ۔ اُنہوں نے فرمایا: ’’ یہ بھی تو مقامِ شکر ہے کہ تمہارے ایک عُضْو (یعنی زَبان )کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے ذِکْر کی توفیق بخشی ہے۔ ‘‘ جس کا دل ذِکرُاللّٰہعَزَّ وَجَلَّمیں نہیں لگتا اُس کو بعض اَوقات شَیطان وَسوَسہ ڈالتا ہے کہ جب تیرا دل ذِکرُاللّٰہعَزَّ وَجَلَّمیں نہیں لگتا تو خاموش ہوجاکہ ایسا ذِکْر کرنا بے ادَبی ہے ۔ امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں : اِس وَسوَسے کا جواب دینے والے تین قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جوایسے موقع پر شیطان سے کہتے ہیں : ’’ خوب توجُّہ دِلائی اب میں تجھے زِچ (یعنی بیزار) کرنے کیلئے دل کو بھی حاضِر کرتا ہوں ۔ ‘‘ اس طرح شیطان کے زخموں پر نمک پاشی ہوجاتی ہے۔ دوسرے وہ احمق ہیں جو شیطان سے کہتے ہیں : ’’ تونے ٹھیک کہا جب دل ہی حاضِر نہیں تو زَبان ہِلائے جانے سے کیا فائدہ! ‘‘ اور وہ ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سے خامو ش ہوجاتے ہیں ۔ یہ نادان سمجھتے ہیں کہ ہم نے عَقْلمندی کا کام کیا حالانکہ اُنہوں نے شیطان کو اپناہمدرد سمجھ کر دھوکاکھالیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں : اگر چِہ ہم دل کو حاضـر نہیں کرسکے مگر پھر بھی زَبان کو ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں مصروف رکھنا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اگر چہِ دل لگا کر ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کرنااس طرح کے ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سے کہیں بہتر ہے۔ (کیمیائے سعادت ج۲ ص۷۷۱)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! دل نہ لگے تب بھی عمل جاری رکھنا ہی ہمارے لئے بہتر ہے ۔ بَہَر حال نیک بننے کا نسخہ حاضِر کیا ہے ، اِس کے مطابِق عمل کرتے جایئے۔ کھبی نہ کبھی تواِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمنزِل پاہی لیں گے۔ مَدَنی انعام نمبر16 میں