نیک بننے کا نسخہ

      بیان کردہ حضرتِ سیِّدُ نا مالِک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی ایمان افروزحِکایت میں  دل پر چوٹ لگانے والی جس آیتِ قراٰنی کا تذکِرہ ہے تفسیر خزائنُ الْعِرفان میں  اس کا شانِ نُزُول یہ ہے: اُمُّ المومنین عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے مروی ہے: نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدولت سرائے اقد س سے باہَر تشریف لائے تو مسلمانوں  کو دیکھا کہ آپَس میں  ہنس رہے ہیں ۔ فرمایا: تم ہنستے  ہو!  ابھی تک تمہارے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے امان نہیں  آئی اور تمہارے ہنسنے پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔اُنہوں  نے عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اِس ہنسی کاکَفّارہ کیا ہے؟  فرمایا: اتنا ہی رونا۔    (تفسیر خزائن العرفان پ۲۷، الحدید زیر آیت ۱۶)

نَدامت سے گناہوں  کااِزالہ کچھ تو ہوجاتا

ہمیں  رونا بھی تو آتا نہیں  ہائے نَدامت سے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بانسری سے آیت کی آواز گونج اُٹھی!

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعی!  یہ آیتِ کریمہ نیک بننے کا بہترین مَدَنی نسخہ ہے، اس ضِمْن میں  ایک اور ایمان افروز حِکایت سماعت فرمایئے ، چُنانچِہ اس آیتِ مبارَکہ کو سن کر نہ جانے کتنوں  کی زندگیوں  میں  مَدَنی انقلاب آگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : میرا عُنْفُوانِ شباب تھا ، اپنے دوستوں  کے ہمراہ سیر وتفریح کرتے ہوئے ایک باغ میں  پہنچا ، مجھے بانسری بجانے کا بَہُت شوق تھا، رات جوں  ہی بانسری بجانے کیلئے اٹھائی، بانسری میں  سے یہ آیتِ کریمہ   گونج اُٹھی:

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ (پ۲۷، الحدید:۱۶)

ترجَمۂ کنزُالایمان : کیا ایمان والوں  کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ انکے دل جھک جائیں  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی یاد (کیلئے)۔

آیت سُن کر میرا دل چوٹ کھا گیا، میں  نے بانسری توڑ ڈالی اور گناہوں  سے سچّے دل سے توبہ کی اور عہدکیا کہ کوئی ایسا کام ہرگز نہیں  کروں  گا جو مجھے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے دُور کردے۔ (شُعَبُ الْاِیمان  ج۵ ص۴۶۸حدیث ۷۳۱۷)

 نابینا کو آنکھیں  مل گئیں

      دیکھا آپ نے !  یہ آیتِ کریمہ حضرتِ سیِّدُنا  عبدُ اللّٰہ بن مبارَکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی ہِدایت کا ذَرِیعہ بن گئی اور آپ وِلایت کے بَہُت بڑے منصب پر فائِض ہوگئے۔ ایک بار آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکہیں  تشریف لئے جارہے تھے کہ ایک نا بینا ملا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا : کہو کیا حاجت ہے ؟  عرض کی: آنکھیں  درکار ہیں  ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اُسی وَقْت دُعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اُس نابینا کی آنکھیں  روشن کردیں ۔(تذکِرۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۱۶۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ڈاکو کو ہدایت کیسے ملی؟

      حضرتِ سیِّدُنا اسمٰعیل حقی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :  ’’ سیِّدُنا فُضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے نیک بننے کا سبب بھی یِہی آیت بنی۔ ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے دور کے مشہور ڈاکو تھے۔ کسی عورت کے عشق میں گَرِفتار ہوگئے، وہ بھی بد کاری کیلئے آمادہ ہوگئی ، جب مقرَّرہ وَقت پر گئے تو کہیں  سے اِسی آیت اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ترجَمۂ

Index