پانچ بابرکت راتیں
حضرت ِسیِّدُناابو اُمامہرضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ نبیِّ کریم، رء ُوْفٌ رّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلٰوةِ وَالتَّسْلِيْم کا فرمانِ عظیم ہے : ’’پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دُعا رَد نہیں کی جاتی{۱}رجَب کی پہلی ( یعنی چاند ) رات{۲}پندَرَہ شعبان کی رات ( یعنی شبِ براءَ ت ) {۳} جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات{۴} عیدالفطرکی ( چاند ) رات{۵} عیدُالْاَضْحٰی کی ( یعنی ذُوالْحِجّہ کی دسویں ) رات۔ ‘‘ ( تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۱۰ص۴۰۸ )
حضرت ِسیِّدُناخالِد بن مَعْدان رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیّتِ ثواب ان کو عبادت میں گزارے تو اللہ تَعَالٰی اُسے داخل جنت فرمائے گا{۱}رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اسکے دن میں روزہ رکھے{۲}شعبان کی پندرَھویں رات ( یعنی شبِ براءَ ت ) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے{۳، ۴}عِیدَین ( یعنی عید الفطر اور عیدُ الْاَضْحٰی یعنی9اور10ذُوالْحِجّہ کی درمیانی شب ) کی راتیں کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے ( عیدین کے دن روزہ رکھنا ناجائز ہے ) {۵}اور شب ِعاشوراء ( یعنی مُحَرَّمُ الْحَرَام کی دَسویں شب ) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے ۔ ( اَلبَدْرُ الْمُنِیر لابنِ الْمُلَقِّن ج۵ص۴۰ ، غُنْیَۃُ الطّا لِبِیْن ج۱ ص۳۲۷ )
پہلا روزہ تین سال کے گناہوں کا کَفّارہ
فرمانِ مصطفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ’’رجَبکے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کَفّارہ ہے ، اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کَفّارہ ہے ، پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفّارہ ہے۔‘‘ ( اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۱۱ حدیث ۵۰۵۱، فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۷ ) یہاں ’’گناہ کا کَفّارہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے ، گناہِ صغیرہ کی معافی کا ذَرِیعہ بن جاتے ہیں ۔
کشتی نوح میں رجب کے روزے کی بہار
حضرتِ سَیِّدُنااَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : جس نے رجب کاایک روزہ رکھا تو وہ ایک سال کے روزوں کی طرح ہوگا ۔ جس نے سات روزے رکھے اُس پر جہنَّم کے ساتوں دروازے بند کرد ئیے جا ئیں گے ، جس نے آٹھ روزے رکھے اُس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے، جس نے دس روزے رکھے وہ اللہ عَزَّوَجَل سے جو کچھ مانگے گا اللہ عَزَّوَجَل اُسے عطا فرما ئے گا ۔ اور جس نے پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک مُنادی نِدا ( یعنی اعلان کرنے والااعلان ) کرتا ہے کہ تیرے پچھلے گُناہ بَخش دئیے گئے پس تُو ازسرِ نَو عمل شروع کر کہ تیری بُرائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں ۔ اور جو زائد کرے تو اللہ عَزَّوَجَل اُسے زیادہ دے ۔ اور رَجَب میں نُوح ( عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ) کشتی میں سُوار ہوئے توخود بھی روزہ رکھا اور ہمراہیوں کو بھی روزے کا حکم دیا ۔ ان کی کشتی دس مُحرَّم تک چھ ماہ برسرِ سفر رہی ۔ ( شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۱ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک روزے کی فضیلت
حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینَقْل کرتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : ماہِ رَجَب حُرمَت والے مہینوں میں سے ہے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اِس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی شخصرجَب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ ( روزے والا ) دن اس بندے کیلئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مغفِرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے : یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اِ س بندے کو بخش دے اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگا ر ی کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشِش کی درخواست نہیں کریں گے اور اُس شخص سے کہتے ہیں : ’’اے بندے ! تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا ۔ ‘‘ ( مَاثَبَتَ بِالسُّنۃ ص۲۳۴، فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۳، ۴ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! معلوم ہوا کہ روزے سے مقصود صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ، تما م اعضاء کو گناہوں سے بچانا بھی ہے، اگر