کفن کی واپسی

شہادت کا سبب بنا  ۔  آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مزارِ اقدس جنَّتُ الْبقیع  ( مدینۃُ المنوّرہ ) میں   والد محترم حضرت سیِّدُنا امام محمد باقِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پہلو میں   ہے  ۔  اللّٰہ ربُّ العزّت عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو ۔ اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

               کھانا کھلانے کے ذریعے ایصالِ ثواب کرنا سنّتِ صحابہ ہے اور رجب کے کونڈے میں   بھی غذا یعنی کھانے ہی کی چیز ہوتی ہے جو کہ ایصالِ ثواب کیلئے کھلائی جاتی ہے ۔ چُنانچِہ

صحابہ سات دن تک ایصالِ ثواب کرتے

             حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطِی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینقل فرماتے ہیں   کہ  صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سات روز تک وفات پاجانے والوں   کی طرف سے کھانا کھلایا کرتے تھے  ۔  ( اَلْحاوِی لِلْفَتاوِی لِلسُّیُوطی ج۲ص۲۲۳ )   

 صحابی نے ماں   کی طرف سے باغ صدقہ کر دیا

       بخاری شریف میں   ہے : حضرتِ سیِّدُنا سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی امّی جان کا انتقال ہوا توانہوں   نے بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں   حاضر ہو کر عرض کی :  یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !  میری امّی جان کا میری غیر موجودگی میں   انتقال ہو گیا ہے ،    اگر میں   ان کی طرف سے کچھ صَدَقہ کروں   تو کیا انہیں   کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا :  ہاں   ،     عرض کی :  تو میں   آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں   کہ میر ا باغ ان کی طرف سے صَدَقہ ہے  ۔   (  بُخاری  ج۲ص ۲۴۱ حدیث۲۷۶۲ ) معلوم ہو ا کھانا کھلانے  کے علاوہ باغ یعنی مال خرچ کرنے کے ذَرِیعے بھی ایصالِ ثواب جائز ہے اور کونڈے شریف کی نیاز بھی مالی ایصالِ ثواب  میں   شامل ہے ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : امواتِ مسلمین  ( یعنی مرحومین ) کے نام پر کھانا پکاکر ایصالِ ثواب کے لئے تَصَدُّق ( یعنی خیرات )  کرنا بلا شبہ جائز ومُسْتَحسَن ( یعنی پسندیدہ ) ہے اور اس پر فاتحہ ( کے ذریعے  ) سے ایصالِ ثواب  ( کرنا )  دوسرا مُسْتَحسَن ( یعنی پسندیدہ ) ہے اور دوچیزوں   کا جمع کرنا زِیادتِ خیر ( یعنی بھلائی میں   اِضافہ )  ہے ( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۹ ص۵۹۵ )  ہر شخص کو افضل یہی کہ جو عملِ صالح  ( یعنی جو بھی نیک کام ) کرے اُس کا ثواب اوّلین وآخِرین اَحیاء واَموات  ( یعنی سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے لے کر تا قیامت ہونے والے ) تمام مؤمنین ومؤمِنات کے لیے ہدِیَّہ ( ہَ ۔ دی ۔ یہ )  بھیجے  ( یعنی ایصالِ ثواب کرے ) ،     سب کو ثواب پہنچے گااور اُسے ( یعنی جس نے ایصالِ ثواب کیا ) اُن سب کے برابر اجرملے گا ۔  ( ایضاً ص۶۱۷ )  ایصالِ ثواب اچّھی نیّت سے کیا جائے اس میں  نُمود و نمائش  ( یعنی دِکھاوا  )  مقصود نہ ہو،     نہ اس کی اُجرت اور مُعاوَضہ لیا گیا ہو،     ورنہ نہ ثواب ہے نہ ایصالِ ثواب ۔  یعنی جب ثواب ہی نہ ملا تو پہنچے گا کیسے !  ( ماخوذاز بہار شریعت ج۱ ص۱۲۰۱ ج۳ ص۶۴۳)

دن مقرَّر کرنا

وسوسہ  : تیجہ ،     چالیسواں   ،     گیارہویں   ،     بارہویں   اوررجب کے کونڈے وغیرہ کے نام سے ایصالِ ثواب کے دن کیوں   مخصوص کر لئے گئے ہیں  ؟

جواب وسوسہ :             ایصالِ ثواب کے لئے شریعت میں   کوئی مدّت اور وَقت متعین    (  مُتَ ۔ عَ ۔ یَّن یعنی مقرّر)  نہیں   ،    البتّہ دن وغیرہ مقرر کرنے میں   شَرْعاً حَرج بھی نہیں   ،    وقت مُقرَّرکرنا دو طرح ہے  ( ۱ )  شَرعی :  شریعت نے کسی کام کے لیے وقت مقرَّر فرمایا ہو ۔  مَثَلًاقربانی ،    حج وغیرہ  ( ۲ )  عُرفی :  شریعت کی جانب سے وَقت مقرّر نہ ہو لیکن لوگ اپنی اور دوسروں   کی سَہولت اوریادد ہانی یا کسی خاص مَصلَحَت کے لیے کوئی وقت خاص کر لیں   ۔  جیسے آج کل مساجِد میں   نمازوں   کی جماعت کے لیے اوقات مخصوص کرناوغیرہ،     حالانکہ پہلے جماعت کے لئے وقت طے نہیں   ہوتا تھا جب نمازی اکٹّھے ہو جاتے جماعت کھڑی کر دی جاتی ۔  بعض کاموں   کے لیے تو خود سرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وَقت مقرَّر فرمایا نیز صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اوربُزُرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن سے بھی ایسا کرنا ثابت ہے مَثَلاً {۱} حضور پر نور سیِّد عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہرسال شہدائے اُحُد عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی قبروں   پر تشریف لے جانے کا وقت مقرَّر فرمالیا تھا ( [1] ) {۲}سنیچر ( یعنی ہفتے )  کے دن سرکارِ مدینہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کامسجد قبا میں   تشریف لانا   ( [2] 



[1]    مصنّف عبدالرزاق ج۳ص ۳۸۱حدیث ۶۷۴۵

[2]     مُسلِم ص۷۲۴حدیث۱۳۹۹

Index