ایک جُدا رَجَب ۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان میں قتال ( یعنی جنگ ) حرام جانتے تھے ۔ اسلام میں ان مہینوں کی حُرمت وعَظَمت اور زیادہ کی گئی ۔ ( خزائنُ العِرفان ص۳۶۲ ) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! آیتِ مُبارَکہ میں قمری ( یعنی ہجری سِن کے12 ) مہینوں کا ذِکر ہے جن کا حساب چاند سے ہوتا ہے ، بہت سے اَحکامِ شَرع کی بِنا ( یعنی بنیاد ) بھی قمری مہینوں پر ہے، مَثَلاً رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے، زَکوٰۃ، مَناسک حج شریف وغیرہ نیز اسلامی تہوار مَثَلاً عید میلادُ النبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، عیدُ الفطر، عیدُ الْاَضْحٰی، شبِ معراج، شب براءَت، گیارہویں شریف، اَعراسِ بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن وغیرہ بھی قمری مہینوں کے حساب سے منائے جاتے ہیں ۔ افسوس ! آجکل مسلمان جہاں بے شمار سنتوں سے دُور جاپڑا ہے وَہاں اسلامی تاریخوں سے بھی ناآشنا ہوتا جارہا ہے ۔ غالِباً ایک لاکھ مسلمانوں کے اجتماع میں اگر یہ سُوال کیا جائے کہ ’’بتاؤ آج کس ہِجری سِن کے کون سے مہینے کی کتنی تاریخ ہے ؟‘‘تو شاید بمشکل سو مسلمان ایسے ہوں گے جو صحیح جواب دے سکیں ! یادرہے کہ بہت سے مُعاملات جیسے زکوٰۃکی فرضیت وغیرہ میں قمری مہینوں کا لحاظ رکھنا فرض ہے ۔
رَجَب کے احتِرام کی بَرَکت کی حکایت
حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ رُوحُاللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے دَور کا واقعہ ہے کہ ایک شخص مدت سے کسی عورت پر عاشق تھا ۔ ایک بار اُس نے اپنی معشوقہ پر قابو پالیا، لوگوں کا مجمع دیکھ کر اُس نے اندازہ لگایا کہ وہ چاند دیکھ رہے ہیں ، اُس نے اُس عورت سے پوچھا : لوگ کس ماہ کا چاند دیکھ رہے ہیں ؟جواب دیا : ’’رجب کا ۔ ‘‘یہ شخص حالانکہ غیر مسلم تھا مگررجب شریف کا نام سنتے ہی تعظیماً فوراً الگ ہوگیا اور’’ گندے کام‘‘ سے باز رہا ۔ حضرتِ سَیِّدُناعیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوحکم ہوا : ہما ر ے فلاں بندے کی ملاقات کرو ۔ ‘‘آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامتشریف لے گئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم اور اپنی تشریف آوَری کا سبب ارشاد فرمایا ۔ یہ سنتے ہی اُس کا دل نورِ اسلام سے جگمگا اٹھا اور اُس نے فوراً اسلام قبول کرلیا ۔ ( انیسُ الواعِظینص۱۷۷ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھی آپ نے رجب کی بہاریں ! رجَبُ المُرَجَّب کی تعظیم کرنے سے جب ایک غیر مسلم کو ایمان کی دولت نصیب ہوسکتی ہے تو جومسلمان رجَبُ الْمُرَجَّب کا احترام کرے اُس کو نہ جانے کیا کیا اِنعامات ملیں گے ! قراٰنِ پاک میں حرمت ( یعنی عزت ) والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے چنانچہ ’’نُور العرفان‘‘میں : فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ( ترجَمَۂ کنزُا لایمان : تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو ) کے تحت ہے : ’’یعنی خصوصیَّت سے ان چار مہینوں میں گناہ نہ کرو ۔ ‘‘( نورُالعِرفان ص۳۰۶ )
حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرکارِ نامدار، دوعالَم کے مالِک ومختاربِاِذنِ پروَردَگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مشکبار ہے : ’’جس نے ماہِ حرام میں تین دن جُمعرات، جُمُعہ اور ہفتہ ( یعنی سنیچر ) کے روزے رکھے ، اس کے لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا ۔ ‘‘
( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۱ص۴۸۵حدیث۱۷۸۹ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یہاں ’’ماہِ حرام‘‘ سے یہی چار ماہ یعنی ذُوالْقَعدہ ، ذُوالْحِجّہ ، مُحَرَّمُ الْحرام اوررَجَبُ الْمُرَجَّب مُرادہیں ، ا ن چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی بیان کردہ تین دنوں کا روزہ رکھ لیں گے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ دوسال کی عبادت کاثواب پائیں گے ۔
تیرے کرم سے اے کریم ! مجھے کون سی شے ملی نہیں
جھولی ہی میری تنگ ہے، تیرے یہاں کمی نہیں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک بارحضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا ۔ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ میں عرض کی : يَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اِس پہاڑ کو قُوّتِ گویائی ( یعنی بولنے کی طاقت ) عطا فرما ۔ وہ پہاڑ بول اُٹھا : یا رُوحَ اللّٰہ ! ( عَلٰی