{۱} فِرشتے دُعائے مغفِرت کرتے ہیں
حضرتِ سیِدَّتُنا اُمّ عُمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں : حضورِ پاک ، صاحبِ لولاک ، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ سراپا بَرَکت میں کھانا پیش کیا تو ارشاد فرمایا : ’’ تم بھی کھائو ۔ ‘‘ میں نے عرض کی : میں روزے سے ہوں ۔ تو رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب تک روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے، فِرشتے اس ( روزہ دار ) کے لیے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ ( سُنَنِ تِرمِذی ج ۲ ص ۲۰۵ حدیث ۷۸۵ )
{۲} روزہ دار کی ہڈیاں کب تسبیح کرتی ہیں
حضرتِ سیِّدُنابِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نبیِّ اکرم، نورِ مُجَسَّم ، شاہِ آدم وبنی آدم ، رسُولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمتِ معظَّم میں حاضِرہوئے، اُس وقت حضور پُرنو ر ، شافِع یوم النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ناشتا کررہے تھے، فرمایا : اے بِلال ! ’’ ناشتا کرلو ۔ ‘‘ عرض کی : ’’ یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میں روزہ دار ہوں ۔ ‘‘ تو رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ہم اپنی روزی کھارہے ہیں اور بلال کا ر ِزق جنت میں بڑھ رہا ہے ۔ ‘‘اے بلال ! کیا تمہیں خبر ہے کہ جب تک روزہ دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈّیاں تسبیح کرتی ہیں ، اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں ۔ ‘‘ ( شُعَبُ الْاِیمانج ۳ ص ۲۹۷حدیث ۳۵۸۶ )
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کھانا کھاتے میں کوئی آجائے تو اُسے بھی کھانے کے لیے بُلانا سُنَّت ہے، مگر دِلی ارادے سے بُلائے جھوٹی تواضع نہ کرے، اور آنے والا بھی جھوٹ بول کر یہ نہ کہے کہ مجھے خواہش نہیں ، تاکہ بھوک اور جھوٹ کا اجتماع نہ ہوجائے، بلکہ اگر ( نہ کھانا چاہے یا ) کھانا کم دیکھے تو کہہ دے : بَارَکَ اللّٰہ ( یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ برکت دے ) یہ بھی معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات ، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی عبادات نہیں چھپانی چا ہئیں بلکہ ظاہر کردی جائیں تاکہ حضور پرنور، شافع یومُ النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر گواہ بن جائیں ۔ یہ اظہار ریا نہیں ۔ ( حضرتِ سیِّدُنا بلال کے روزے کا سُن کر جو کچھ فرمایا گیا اُس کی شرح یہ ہے ) یعنی آج کی روزی ہم تو اپنی یہیں کھائے لیتے ہیں اور حضرتِ بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس کے عوض ( عِ ۔ وَض ) جنت میں کھائیں گے وہ عوض ( یعنی بدلہ ) اِس سے بہتر بھی ہوگا اور زِیادہ بھی ۔ حدیث بالکل اپنے ظاہری معنی پر ہے، واقعی اُس وقت روزہ دار کی ہر ہڈّی و جوڑ بلکہ رگ رگ تسبیح ( یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پاکی بیان ) کرتی ہے، جس کا روزہ دار کو پتا نہیں ہوتا مگرسرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنتے ہیں ۔ ( مراٰۃ ج ۳، ص ۲۰۲بتغیر قلیل )
مُطالَعہ کرلیا ہو تب بھی دونوں رِسالے ( ۱ ) ’’ کفن کی واپسی مَعَ رجب کی بہاریں ‘‘اور ( ۲ ) ’’آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہینا‘‘ پڑ ھ لیجئے ۔ نیز ہر سال شَعْبانُ الْمُعَظَّم میں فیضانِ سنت جلداوّل کا باب ’’فیضانِ رَمضان‘‘ بھی ضَرور پڑھ لیا کریں ۔ ہوسکے تو عید ِمعراج النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نسبت سے 127یا27رسالے یا حسبِ توفیق فیضانِ رَمضان بھی تقسیم فرمائیے اور ڈھیروں ڈھیر ثواب کمائیے، تمام اسلامی بھائیوں بالعموم اور جامِعاتُ المدینہ اور مدارِس المدینہ کے جملہ قاری صاحبان ، اَساتِذہ، ناظمین اور طلبہ کی خدمتوں میں بالخصوص تڑپتی ہوئی مَدَنی عرض ہے کہ براہِ کرم ! ( میرے جیتے جی اور مرنے کے بعد بھی ) زکوٰۃ ، فِطرہ ، قربانی کی کھالیں اور دیگرمَدَنی عطیات جمع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا کیجئے ۔ ( اسلامی بہنیں دیگر اسلامی بہنوں اور محارِم کومَدَنی عطیات کی ترغیب دلائیں ) خدا کی قسم ! مجھے اُن اساتِذہ اور طلبہ کے بارے میں سن کر بہت خوشی ہوتی ہے جو اپنے گائوں یا شہر میں جانے کی خواہش کو قربان کرکے رَمَضانُ المبارک جامِعات میں گزارتے اور اپنی مجلس کی ہِدایات کے مطابق مَدَنی عطیّات کے بستوں پر ذمّے داریاں سنبھالتے ہیں ، جو اساتذہ اور طلبہ بغیر کسی عذر کے محض سستی یا غفلت کے باعث عدم دلچسپی کا مُظاہرہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے میرا دل روتا ہے ۔