نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ) آپ کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا : اپنا حال بیان کر ۔ پہاڑ بولا : ’’میرے اندر ایک آدَمی رہتا ہے ۔ ‘‘سَیِّدُناعیسیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں عرض کی : ’’ يَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اُس کو مجھ پر ظاہر فرما دے ۔ ‘‘یکایک پہاڑشق ہوا ( یعنی پھٹ ) گیا اور اُس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ایک بزرگ برآمد ہوئے اُنہوں نے عرض کی : ’’میں حضرتِ سَیِّدُنا موسٰی کلیمُ اللّٰہ ( عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ) کا اُمَّتی ہوں میں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے یہ دُعا کی ہوئی ہے کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب، نبیِّ آخِرُ الزَّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعْثَتِ مُبارَکہ تک زندہ رکھے تاکہ میں اُن کی زیارت بھی کروں اور ان کا اُمَّتی بننے کا شَرَف بھی حاصِل کروں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں مشغول ہوں ۔ ‘‘ حضرتِ سَیِّدُناعیسیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی : يَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! کیا رُوئے زمین پر کوئی بندہ اِس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ( یعنی عزت والا ) ہے ؟ ارشاد ہوا : اے عیسیٰ ( عَلَيْهِ السَّلَام ) ! اُمَّتِ محمدی میں سے جو ماہ ِرجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اِس سے بھی زیادہ مکرّم ہے ۔ ( نُزْہَۃ المجالس ج۱ ص۲۰۸) اللّٰہ ربُّ العزّت عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو ۔ اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ماہِ رجب میں بعض جگہ حضرتِ ( سَیِّدُنا ) امام جعفر صادِق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوایصالِ ثواب کے لیے پور یوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کررکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے ۔ اس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ’’داستانِ عجیب‘‘ ہے، اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھواتے ہیں اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبو ت نہیں وہ نہ پڑھی جائے فاتحہ دلا کر ایصالِ ثواب کریں ۔ ( بہارِشریعت ج ۳ص۶۴۳ ) اِسی طرح ’’دس بیبیوں کی کہانی، ‘‘ ’’لکڑہارے کی کہانی‘‘ اور’’ جنابِ سیِّدہ کی کہانی‘‘ سب من گھڑت قِصّے ہیں ان کو نہ پڑھا کریں ، اِس کے بجائے ایک بار سُوْرَۂ یٰسٓ پڑھ لیا کریں کہ دس قراٰنِ کریم ختم کرنے کا ثواب ملے گا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کونڈے ہی میں کھیر کھانا ، کھلانا ضَروری نہیں ، دوسرے برتن میں بھی کھا اور کھلا سکتے ہیں ۔ ایصالِ ثواب ( یعنی ثواب پہنچانا ) قراٰنِ کریم و احادیثِ مبارَکہ سے ثابت ہے ، ایصالِ ثواب دُعا کے ذریعے بھی کیاجاسکتا ہے اور کھاناوغیرہ پکا کر اُس پر فاتحہ دلا کر بھی ۔ کونڈوں کی نیاز بھی ایصالِ ثواب ہی کی ایک صورت ہے اِس کو ناجائز کہنا شریعت پر اِفترا ( یعنی تہمت باندھنا ) ہے ۔ ناجائز کہنے والے پارہ 7 سُوْرَۃُ الْمَائِدہکی آیت نمبر87میں بیان کردہ حکمِ الٰہی سے عبرت پکڑیں چنانچِہ ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ( ۸۷ )
ترجَمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو ! حرام نہ ٹھہرا ؤ وہ ستھری چیزیں کہاللہنے تمہارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو ۔ بے شک حد سے بڑھنے والےاللہکوناپسند ہیں ۔
’’رَجَب کے کونڈے ‘‘کِس تاریخ کو کریں ؟
پورے ماہِ رَجب میں بلکہ سارے سال میں جب چاہیں ایصالِ ثواب کیلئے کونڈوں کی نیاز کر سکتے ہیں ، البتّہ مناسب یہ ہے کہ 15 رَجَبُ المُرَجَّب کو ’’ رَجب کے کونڈے‘‘ کئے جائیں کیوں کہ یہ آپ کا یومِ عُرس ہے جیسا کہ فتاوٰی فقیہِ ملّت جلد 2 صَفْحَہ 265 پر ہے : ’’حضرتِ ( سَیِّدُنا ) امام جعفرِ صادِق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نیاز 15رجب کو کریں کہ حضرت کا وصال 15 ہی کو ہواہے ۔ ‘‘نیز مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب شرحِ شجرۂ قادریہ ‘‘ صَفْحَہ59پر ہے : آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو68برس کی عمر میں ( [1] ) 15 رَجَبُ المُرَجَّب ( [2] ) ۱۴۸ھ کو کسی شَقِیُّ الْقَلْب ( یعنی سنگ دل ۔ ظالم ) نے زہر دیاجو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی