سلطانِ دو جہان، شفیعِ مُجرِمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمکافرمانِ شَفاعَت نشان ہے : ’’ جو شخص قبرِستان میں داخِل ہوا پھر اُس نےسُورَۃُ الْفَاتِحَۃِ ، سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص اورسُورَۃُ التَّکَاثُر پڑھی پھر یہ دعا مانگی : یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں نے جو کچھ قراٰن پڑھا اُس کا ثواب اِس قبرِستان کے مومِن مَرد وں اور مومِن عورَتوں کو پہنچا ۔ تو وہ سب کے سب قِیامت کے روز اس ( یعنی ایصالِ ثواب کرنے والے ) کے سِفارشی ہو نگے۔ ‘‘ (شَرْحُ الصُّدُورص۳۱۱)
ہر بھلے کی بھلائی کا صدقہ
اس برے کو بھی کر بھلا یارب! (ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سورۂ اِخلاص کے اِیصالِ ثواب کی حِکایت
حضرتِ سیِّدُنا حَمّاد مکّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : میں ایک راتمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے قبرِستان میں سوگیا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ قبر والے حلقہ در حلقہ کھڑے ہیں ، میں نے ان سے اِستِفسار کیا (یعنی پوچھا) : کیا قِیامت قائم ہوگئی ؟ اُنہوں نے کہا : نہیں ، باتدراصل یہ ہے کہ ایک مسلمان بھائی نے سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر ہم کو ایصالِ ثواب کیا تو وہ ثواب ہم ایک سال سے تقسیم کررہے ہیں ۔ (شَرحُ الصُّدُوْر ص۳۱۲)
سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ تونے جب سے سنادیا یارب!
آسرا ہم گناہ گاروں کا اور مضبوط ہوگیا یارب!
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اُمِّ سَعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمَا کیلئے کُنواں
حضرتِ سَیِّدُنا سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عَرْض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم! میری ماں انتِقال کرگئی ہیں (میں اُن کی طرف سے صَدَقہ (یعنی خیرات) کرنا چاہتا ہوں ) کون سا صَدَقہ افضل رہے گا؟ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا : ’’پانی۔ ‘‘ چُنانچِہ اُنہوں نے ایک کُنواں کھدوایا اور کہا : ھٰذہ لاُِمِّ سَعدیعنی ’’یہ اُمِّ سَعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمَا کیلئے ہے۔ ‘‘ ( اَبودَاوٗد ج۲ص۱۸۰حدیث۱۶۸۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سَیِّدُ نا سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اِس ارشاد : ’’ یہ اُمِّ سعد (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمَا) کیلئے ہے ‘‘ کے معنٰی یہ ہیں کہ یہ کُنواں سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں کے ایصالِ ثواب کیلئے ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا گائے یا بکرے وغیرہ کو بُزُرگوں کی طرف مَنسوب کرنا مَثَلاً یہ کہنا کہ ’’یہ سَیِّدُنا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا بکراہے‘‘ اس میں کوئی حَرَج نہیں کہ اس سے مُراد بھی یِہِی ہے کہ یہ بکرا غوثِ پاک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاقکے ایصالِ ثواب کیلئے ہے۔ قربانی کے جانور کو بھی تو لوگ ایک دوسرے ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں ، مَثَلاً کوئی اپنی قربانی کا بکرا لئے چلا آرہا ہو اور اگر آپ اُس سے پوچھیں کہ کس کا بکراہے ؟ تو اُس نے کچھ اس طرح جواب دینا ہے، ’’میرا بکراہے‘‘ یا ’’میرے ماموں کا بکرا ہے۔ ‘‘ جب یہ کہنے والے پر اعتِراض نہیں تو ’’غوثِ پاک کا بکرا‘‘کہنے والے پر بھی کوئی اعتِراض نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں ہر شے کا مالکاللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے اور قربانی کا بکرا ہو یا غوثِ پاک کا بکرا، ذَبْح کے وَقت ہر ذَبیحہ پر اللہ عَزَّوَجَلَّکاہی نام لیا جاتا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّوَسوَسوں سے نَجات بخشے۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد