’’اللہ کی رَحْمت کے کیا کہنے! ‘ ‘ کے اُنّیس حُرُوف کی
نسبت سے ایصالِ ثواب کے 19مَدَنی پھول
{1} ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنیٰ ہیں : ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو ’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں مگر بُزُرگوں کیلئے ’’ثواب بخشنا‘‘ کہنا مُناسِب نہیں ، ’’ثواب نَذْر کرنا‘‘ کہنا ادب کے زیادہ قریب ہے۔ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں : حُضُورِاقدس عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْمخواہ اورنبی یاولی کو ’’ثواب بخشنا ‘‘ کہنابے ادَبی ہے بخشنابڑے کی طرف سے چھوٹے کوہوتاہے بلکہ نَذر کرنایاہدِیَّہ کرناکہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۶ص ۶۰۹)
{2} فرض، واجب ، سنّت ، نَفْل، نَماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، تلاوت، نعت شریف، ذِکرُ اللہ ، دُرُودشریف ، بیان، دَرس، مَدَنی قافِلے میں سفر، مَدَنی اِنْعامات، عَلاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت، دینی کتاب کا مُطالَعَہ، مَدَنی کاموں کیلئے انفِرادی کوشِش وغیرہ ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ۔
{3} میِّت کا تیجا، دسواں ، چالیسواں اور برسی کرنا بہت اچّھے کام ہیں کہ یہ ایصال ثواب کے ہی ذرائِع ہیں ۔ شریعت میں تیجے وغیرہ کے عَدَمِ جواز (یعنی ناجائزہونے) کی دلیل نہ ہونا خود دلیلِ جواز ہے اور میِّت کیلئے زندوں کا دعا کرناقراٰنِ کریم سے ثابِت ہے جو کہ ’’ایصالِ ثواب ‘‘ کی اَصْل ہے ۔ چُنانچِہ پارہ28سُوْرَۃُ الْحَشْرآیت 10میں ارشادِ ربُّ العِباد ہے :
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ
ترجَمۂ کنزالایمان : اور وہ جوان کے بعد آئے عَرْض کرتے ہیں : اے ہمارے رب (عَزَّوَجَلَّ) ! ہمیں بَخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔
{4} تیجے وغیرہ کا کھانا صِرْف اِسی صورت میں میِّت کے چھوڑے ہوئے مال سے کرسکتے ہیں جبکہ سارے وُرَثا بالِغ ہوں اور سب کے سب اجازت بھی دیں اگر ایک بھی وارِث نابالِغ ہے توسخت حرام ہے۔ ہاں بالِغ اپنے حصّے سے کرسکتا ہے۔ (مُلَخَّص از بہار شریعت ج۱ حصہ۴ ص۸۲۲)
{5} تیجے کا کھاناچونکہ عُمُوماً دعوت کی صورت میں ہوتا ہے اِس لئے اَغْنِیا کے لئے جائز نہیں صِرْف غُرَبا ء و مساکِین کھائیں ، تین دن کے بعد بھی میِّت کے کھانے سے اَغْنِیا (یعنی جو فقیر نہ ہوں اُن) کوبچنا چاہئے ۔ فتاوٰی رضویہ جلد9 صفحہ667سے میِّت کے کھانے سے متعلق ایک مُفید سُوال جواب ملاحَظہ ہوں ، سُوال : مقولہ طَعَامُ الْمَیِّتِ یَمِیْتُ الْقَلْب (میّت کا کھانا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ ) مُسْتَنَد قول ہے، اگر مُسْتَنَد ہے تو اس کے کیا معنٰی ہیں ؟
جواب : یہ تجربہ کی بات ہے اور اس کے معنٰی یہ ہیں کہ جو طعامِ میّت کے متمنّی رہتے ہیں ان کا دل مر جاتا ہے، ذِکر و طاعتِ اِلٰہی کے لئے حیات وچُستی اس میں نہیں کہ وہ اپنے پیٹ کے لُقمے کے لئے موتِ مُسْلِمِین کے مُنْتَظِر رہتے ہیں اور کھانا کھاتے وقت موت سے غافل اور اس کی لذّت میں شاغل۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۹ص۶۶۷)
{6} میِّت کے گھر والے اگر تیجے کا کھانا پکائیں تو (مالدار نہ کھائیں ) صِرْف فُقَرا کو کھلائیں جیسا کہ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہبہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ853پر ہے : میّت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز وبدعتِ قَبِیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وَقت مَشرُوع (یعنی شرع کے موافِق) ہے نہ کہ غم کے وقت اور اگر فقرا کو کھلائیں تو بہتر ہے۔ (اَیضاً ص ۸۵۳)