اِس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائیگا
جلیلُ القدر تابِعی حضرت سیِّدنا حَسَن بَصری عَلَیْہِ رَحمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اپنے گھر کے دروازے پرتشریف فرما تھے کہ وہاں سے ایک جنازہ گزرا،آپ رَحمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی اُٹھے اور جنازے کے پیچھے چل دئیے۔ جنازے کے نیچے ایک مَدَنی مُنّیزاروقِطار روتی ہوئی دوڑی چلی جارہی تھی ،وہ کہہ رہی تھی : اے بابا جان ! آج مجھ پر وہ وَقت آیا ہے کہ پہلے کبھی نہ آیاتھا۔ حضرتِ سیِّدُنا حَسَن بصری عَلَیْہِ رَحمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے جب یہ درد بھری آواز سنی توآنکھیں اشکبار، دل بیقرار ہوگیا، دستِ شفقت اُس غمگین ویتیم بچی کے سر پر پھیرا اور فرمایا :بیٹی! تم پر نہیں بلکہ تمہارے مرحوم بابا جان پر وہ وقت آیا ہے کہ آج سے پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ دوسرے دن آپ رَ حمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اُسی مَدَنی مُنّی کو دیکھا کہ آنسو بہاتی قَبْرِستان کی طرف جا رہی ہے۔حضرت سیِّدُنا حَسَن بصری عَلَیْہِ رَحمۃُ اللّٰہِ الْقَوِیبھی حُصولِ عبرت کیلئے اُس کے پیچھے پیچھے چل دئیے۔ قَبرِستان پَہُنچ کر مَدَنی مُنّی اپنے والدِ مرحوم کی قَبرسے لِپٹ گئی ۔ حضرت سیِّدُنا حَسَن بصری عَلَیْہِ رَحمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ایک جھاڑی کے پیچھے چُھپ گئے ۔ مَدَنی مُنّی اپنے رُخسار مٹّی پر رکھ کررو رو کر کہنے لگی: اے بابا جان! آپ نے اندھیرے میں چَراغ اور غمخوار کے بغیر قَبْرکی پہلی رات کیسے گزاری؟ اے بابا جان! کل رات تو میں نے گھر میں آپ کے لئے چَراغ جلایا تھا، آج رات قَبْر میں چَراغ کس نے روشن کیا ہوگا! اے بابا جان! کل رات گھر کے اندرمیں نے آپ کے لئے بچھونا بچھایا تھا آج راتقَبْر میں بچھونا کس نے بچھایا ہو گا! اے بابا جان! کل رات گھر کے اندرمیں نے آپ کے ہاتھ پاؤں دبائے تھے آج راتقَبْر میں ہاتھ پاؤں کس نے دبائے ہوں گے!اے بابا جان! کل رات گھر کے اندر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا آ ج رات قَبْر میں جب پیاس لگی ہوگی اورآپ نے پانی مانگا ہوگا تو پانی کو ن لایا ہوگا ! اے بابا جان! کل رات توآپ کے جسم پر چادرمیں نے اُڑھائی تھی آج رات کس نے اُڑھائی ہو گی؟اے بابا جان! کل رات توگھر کے اندر آپ کے چہرے سے پسینہ میں پُونچھتی رہی ہوں آج رات قبر میں کس نے پسینہ صاف کیا ہو گا!اے بابا جان! کل رات تک توآپ جب بھی مجھے پکارتے تھے میں آ جاتی تھی آج رات قبر میں آپ نے کسے پکارا ہو گا اورپکار سُن کر کون آیا ہو گا!اے بابا جان!کل رات جب آپ کوبھوک لگی تھی تو میں نے کھانا پیش کیا تھا ، آج رات جب قبر میں بھوک لگی ہو گی تو کھاناکس نے دیا ہو گا! اے بابا جان! کل رات تک تو میں آپ کے لئے طرح طرح کے کھانے پکاتی رہی ہوں آج قبر کی پہلی رات کس نے پکایا ہو گا!
حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی غم کی ماری اور دکھیاری مَدَنی مُنّی کی یہ درد بھری باتیں سن کر روپڑے اور قریب آ کر فرمایا: اے بیٹی! اِس طرح نہیں بلکہ یوں کہو:اے بابا جان! دفْن کرتے وَقت آپ کا چِہرہ قبلہ رُخ کیا گیاتھا ،آیاآپ بھی اُسی حالت پرہیں یا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا گیا ہے؟اے بابا جان! آپ کو صاف ستھراکفن پہناکر دفنایا گیا تھا کیا اب بھی وہ صاف ستھرا ہی ہے ؟اے بابا جان! آپ کو قَبْر میں صحیح و سالِم بدن کے ساتھ رکھا گیاتھا ،آیا اب بھی جسم سلامت ہے یا اُسے کیڑوں نے کھا لیا ہے؟اے بابا جان! عُلَما فرماتے ہیں کہ قبر کی پہلی رات بندے سے ایمان کے بارے میں سُوال کیا جائے گا تو کوئی جواب دے گا اور کوئی مایوس رہے گا توآپ نے اس سُوال کا دُرست جواب دے دیا ہے یاناکام رہے ہیں ؟ اے بابا جان!عُلَما فرماتے ہیں کہ بعض مُردوں پر قَبْر کُشادَگی کرتی ہے اور بعض پر تنگی تو آپ پر قَبْرنے تنگی کی ہے یا کُشادَگی؟اے بابا جان! عُلَما فرماتے ہیں کہ کسی میِّت کے کفن کو جنّتی کفن سے اور کسی کے کفن کو جہنَّم کی آگ کے کفن سے بدل دیا جاتا ہے توآپ کا کفن آگ سے بدلا گیا یا جنّتی کفن سے؟اے بابا جان! عُلَما فرماتے ہیں کہ قَبْر کسی کو اِس طرح دباتی ہے جس طرح ماں اپنے بچھڑے ہوئے لال کوفرطِ شفقت سے سینے کے ساتھ چمٹالیتی ہے اور کسی کوغضب ناک ہوکر اِس قَدَر زور سے بِھینچتی ہے کہ اُس کی پسلیاں ٹوٹ پھوٹ کر ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں تو قَبْر نے آپ کو ماں کی طرح نرمی سے دبایا، یا پسلیاں توڑ پھوڑ ڈالی ہیں ؟ اے بابا جان!عُلَما فرماتے ہیں کہ مُردے کو جب قَبْر میں اُتار اجا تا ہے تو وہ دونوں صورتوں میں پچھتاتا ہے، اگر وہ نیک بندہ ہے تو اِس بات پر پچھتاتا ہے کہ اُس نے نیکیاں زیادہ کیوں نہ کیں اور اگر گنہگارہے تو اِس پر کہ گناہ کیوں کئے! تو اے بابا جان! آپ نیکیوں کی کمی پر پچھتائے یاگناہوں پر؟اے بابا جان! کل جب میں آپ کو پکارتی تھی تو مجھے جواب دیتے تھے ،آج میں کتنی بد نصیب ہوں کہ قَبْرکے سرہانے کھڑی ہو کر پکاررہی ہوں مگر مجھے آپ کے جواب کی آواز سنائی نہیں دیتی ! اے بابا جان! آپ تو مجھ سے ایسے جُدا ہوئے کہ قِیامت تک دوبارہ نہیں مل سکتے۔ اے خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ! قیامت کے میدان میں مجھے اپنے بابا جان کی ملاقات سے محروم نہ کرنا۔
حضرتِ سیِّدُناحَسَن بصری عَلَیْہِ رَحمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی یہ باتیں سن کر وہ مَدَنی مُنی عرض گزار ہوئی:اے میرے سردار!آپ کے نصیحت آموز کلمات نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کردیا ہے ۔اس کے بعد وہ روتی ہوئی حضرت سیِّدُنا حَسَن بصری عَلَیْہِ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے ساتھ واپَس لوٹ آئی۔ (المواعظ العصفوریۃلابی بکر بن محمد العصفوری،مترجم ص۱۱۸بتصرف مکتبۂ اعلیٰ حضرت )
آنکھیں رو رو کے سُوجانے والے جانے والے نہیں آنے والے
کوئی دن میں یہ سرا اُوجڑ ہے ارے او چھاؤنی چھانے والے