قبر کی پہلی رات

عَزَّوَجَلَّ میں حاضِرہوگااوروہ نامۂ اعمال تیرے دائیں (یعنی سیدھے)ہاتھ میں  دیاجائے گایا بائیں  (یعنی الٹے)میں  ۔ (اور دوراتوں  میں سے) (۱)ایک رات وہ ہے جو میِّت اپنی قبر میں  گزارے گی کہ اس سے پہلے اس نے ایسی رات کبھی نہیں گزاری ہوگی۔اور(۲) دوسری رات وہ ہے جس کی صبح کوقِیامت کا دن ہوگا اورپھر اس کے بعد کوئی رات نہیں  آئے گی۔  (شُعَبُ الْاِیمان ج  ۷ص ۳۸۸ حدیث ۱۰۶۹۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اعلٰی حضرت کی وصیّت

                                                 اے آج کے زندو اور کل کے مُردو،اے فنا ہوجانے والو، اے کمزورو،اے ناتُوانو، اے ضعیفو، اے بچّو،اے جوانو ،اے بوڑھو! یقینا  قَبْر کی پہلی رات نہایت اہم رات ہے  میرے آقا اعلٰی حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، عاشقِ ماہِ نُبُوت،  ولیٔ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت،پروانۂِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین  ومِلَّت، حامیِٔ سنّت ، ماحِیِٔ بِدعت، پیکرِ فُنُون وحکمت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن نے بہت بڑے ولیُّ اللّٰہاورزَبردست عاشقِ رسول ہونے کے باوُجود یہ وصیت فرمائی کہ : (بعدِدفن تلقین کرنے کے بعد)ڈیڑھ گھنٹہ میرے مُواجَہَہ (یعنی قبر کے چِہرے والے حصے)میں  دُرُود شریف ایسی آوازسے پڑھتے رہیں  کہ میں  سنوں ۔پھر مجھے اَرحَمُ الرّٰحِمِین کے سِپُرد کرکے چلے آئیں ،اور اگر تکلیف گوارا ہو سکے تو تین شبانہ روز کامل(یعنی مکمّل تین دن اور تین راتیں ) پہرے کے ساتھ دوعزیز یا دوست مُواجَہَہ میں  قراٰن شریف ودرود شریف ایسی آواز سے بِلا وَقْفہ پڑھتے رہیں  کہاللہ  عَزَّوَجَلَّ چاہے تو اِس نئے مکان میں  دل لگ جائے ۔(حیاتِ اعلٰی حضرت،حصّہ سوم ص۲۹۱ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)  

سگِ مدینہ کی وصیّت

      اَلحمدُلِلّٰہِ  عَزَّوَجَلّ اپنے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ العِزَّت کی پیروی کرتے ہوئے سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُنے بھی اِسی طرح کی وصیّت کر رکھی ہے چنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ436 صَفَحات پر مشتمل، ’’رسائلِ عطّاریہ‘‘ میں  شامل رسالے’’مدنی وصیّت نامہ‘‘ صَفْحَہ 394 پر ہے :’’ہوسکے تو میرے اہلِ محبت میری تدفین کے بعد 12روز تک، یہ نہ ہوسکے تو کم از کم 12 گھنٹے ہی سہی میری قَبْر پر حَلقہ کئے رہیں اور ذِکْر ودُرُود اور تلاوت ونعت سے میرادل بہلاتے رہیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ   نئی جگہ میں  دل لگ ہی جائے گا، اِس دوران بھی اور ہمیشہ نَمازِ باجماعت کا اہتِمام رکھیں ۔‘‘ 

محبوبِ باری کی اشکباری

       ہمارے بخشے بخشائے آقا ، ہمیں  بخشوانے والے میٹھے میٹھے مکی مدنی مصطَفٰے، شافِعِ یومِ جزا   صلَّی اللّٰہ تعالٰیعلیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قبر کے تعلُّق سے خوفِ خدا عَزَّوَجَل   مُلا حَظہ ہو ۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا بَراء بن عازِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ   فرماتے ہیں  ، ہم سرکارِ مدینہصلَّی اللّٰہ تعالٰیعلیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ہَمراہ ایک جنازے میں شریک تھے تو آپ صلَّی اللّٰہ تعالٰیعلیہ واٰلہٖ وسلَّم قَبْر کے کَنارے پر بیٹھے اوراتنا روئے کہ مِٹّی بھیگ گئی۔ پھر فرمایا: اِس کے لئے تیّاری کرو۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج ۴ ص ۴۶۶حدیث  ۴۱۹۵دارا لمعرفۃ بیروت )

سویا کئے نابَکار بندے

رویا کئے زار زار آقا

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

آخِرت کی پہلی منزل قبْر ہے

                                                امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ   جب کسی کی قَبْر پر تشریف لاتے تو اس قَدَرآنسو بہاتے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی داڑھی مبارَک تَر ہو جاتی ۔  عرض کی گئی:   جنّت و دوزخ کا تذکِرہ کرتے وَقْت آپ نہیں  روتے مگر قَبْر پر بہت روتے ہیں  اِس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا :میں  نے،نبیِّ اکرم ، نورِ مجسَّم، شاہِ بنی آدمصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے سنا ہے:آخِرت کی سب سے پہلی منزِل قَبْرہے، اگر  قَبْروالے نے اِس سے نَجات پائی تو بعد کا مُعاملہ اس سے آسان ہے اور اگر اس سے نَجات نہ پائی تو بعد کا مُعاملہ زِیادہ سخت ہے۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۴ ص۵۰۰ حدیث ۴۲۶۷)

جنازہ خاموش مبلِّغ ہے

                                                میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ذُوالنُّورین ،جامِعُ القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا خوفِ خدا ئے رحمٰنعَزَّوَجَلَّ ! آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ   عَشَرَۂ مُبَشَّرَہیعنی اُن دس خوش نصیب صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان  میں  سے ہیں  جنہیں  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب ، حبیبِ لبیبصلَّی اللّٰہ تعالٰیعلیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اپنی زَبانِ حقِّ ترجُمان سے خُصوصی طور پر جنتّی ہونے کی بِشارت دی تھی،ان سے معصوم فِرشتے حیا کرتے تھے۔ اِس کے باوُجود قَبْر کی ہولناکیوں ، وحشتوں ، تنہائیوں  اور اندھیریوں  کے بارے میں  بے انتِہا خوفزدہ رہا کرتے تھے اور ایک ہم ہیں  کہ اپنی قَبْر کو یکسر بھولے ہوئے ہیں ،روزبروز لوگوں  کے جنازے اٹھتے دیکھنے کے باوُجود یہ نہیں  سوچتے کہ ایک دن ہمارا جنازہ بھی اٹھ ہی جائے گا،یقینا یہ

Index