جنازے ہمارے لئے خاموش مبلِّغ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ جو کچھ زبانِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں اُس کو کسی نے اِس طرح نَظم کیا ہے: ؎
جنازہ آگے آگے کہہ رہا ہے اے جہاں والو
مِرے پیچھے چلے آؤ تمہارا رہنما میں ہوں
اے عاشقانِ رسول !افسوس صد کروڑ افسوس!کہ ہم دوسروں کو قَبْر میں اُترتا ہوا دیکھتے ہیں مگریہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ہمیں بھی قَبْرمیں اُتارا جائے گا ۔آہ! ہماری حالت یہ ہے کہ رات بجلی فیل ہو جائے تو دل گھبرا تاخُصوصاً اکیلے ہوں توبہت خوف آتا اور اندھیرا کاٹ کھاتا ہے،ہائے ! ہائے! اِس کے باوُجود قَبْرکے ہولناک گُھپ اندھیرے کا کوئی اِحساس نہیں ۔ نمازیں ہم سے نہیں پڑھی جاتیں، رَمَضانُ المبارَک کے روزے ہم سے نہیں رکھے جاتے، فرض ہونے کے باوُجودزکوٰۃ پوری ہم سے نہیں دی جاتی، ماں باپ کے حُقُو ق ہم ادا نہیں کرپاتے، آہ ! رات دن گناہوں میں گزررہے ہیں ،یقیناً موت کا ایک وقت مقرَّر ہے اُسے ٹالنا ممکن نہیں ،اگراِسی طرح گناہ کرتے کرتے یکایک موت کا پیغام آپہنچا اورہمیں قَبْرکے گڑھے میں ڈال دیا گیا تو نہ جانے ہماری قَبْر کی پہلی رات کیسی گزرے !
یاد رکھ ہر آن آخِر موت ہے بن تُو مت اَنجان آخِر موت ہے
مرتے جاتے ہیں ہزاروں آدمی عاقِل و نادان آخِر موت ہے
کیا خوشی ہو دل کو چَندے زِیْسْت سے غَمزَدہ ہے جان آخِر موت ہے
مُلکِ فانی میں فنا ہر شَے کو ہے سن لگا کر کان آخِر موت ہے
بارہا عِلمیؔ تجھے سمجھا چکے
مان یا مت مان آخِر موت ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
عالی شان کوٹھی کا عبرت ناک واقعہ
انسان بَہُت لمبے لمبے منصوبے بناتا ہے مگر اُس کی اِس بات کی طرف توجُّہ ہی نہیں ہوتی کہ لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے ،جب یکایک لگام کِھنچے گی اور مرنا پڑ جائے گا تو سب کیاکرایا دھرا کا دھرا رہ جائے گا چُنانچِہ کہا جاتا ہے:’’مدینۃُ الاولیا ملتان‘‘ کا ایک نوجوان دَھن کما نے کی دُھن میں اپنے وطن،شہر،خاندان وغیرہ سے دُور کسی دوسرے مُلک میں جا بَسا۔خوب مال کماتا اور گھر والوں کو بھجواتا،باہم مشورے سے عالیشان کوٹھی بنانے کا طے پایا ۔ یہ نو جوان سالہا سال تک رقم بھیجتا رہا ، گھر والے مکان بنواتے اور اُ س کوخوب سجواتے رہے، یہاں تک کہ عظیمُ الشّان مکان تیّار ہوگیا۔ یہ نوجوان جب وطن واپَس آیا تواُس عظیمُ الشّان کوٹھی میں رہائش کے لئے تیّاریاں عُروج پر تھیں مگر آہ!مقدّر کہ اُس عالی شان مکان میں مُنتَقِل ہونے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ہی اُ س نوجوان کا اِنتقال ہو گیااور وہ اپنے روشنیوں سے جگمگاتے عالیشان مکان کے بجائے گُھپ اندھیری قَبْر میں منتقل ہو گیا۔ ؎
جہاں میں ہیں عِبرت کے ہر سُونُمُونے مگر تُجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تُو نے جو آباد تھے وہ مکاں اب ہیں سُونے
جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے
یہ عِبرت کی جا ہے تَماشا نہیں ہے
افسوس!ہماری اکثریت آج دُنیا کی متوالی اورفکرِآخِرت سے خالی ہے،ہم میں سے کچھ تو وہ ہیں جو فانی دنیا کی لذّتوں کے باعِث مَسرور وشاداں ، زَوال و فنا سے بے خوف، موت کے تصوُّر سے ناآشنا، لذّاتِ دنیا میں بد مست ہیں تو بعض وہ ہیں جو اِس دارِ ناپائیدارمیں یکایک موت سے ہمکَنار ہونے کے اَندیشے سے نَابَلَد،سَہولتوں اورآسائشوں کے حُصُول میں اس قَدَر مگن ہوگئے کہ قبر کے اندھیروں ،وحشتوں اور تنہائیوں کو بھول گئے ۔آہ! آج ہماری ساری توانائیاں صِرف و صِرف دُنیوی زندگی ہی بہتر بنانے میں صَرف ہورہی ہیں ،آخرت کی بہتری کے حُصول کی فکر بہت کم دکھائی دیتی ہے ۔ذرا غور تو کیجئے کہ اس دُنیا میں کیسے کیسے مالدار لوگ گزرے ہیں جو دولت وحکومت ، جاہ وحَشمت ،اَہل وعِیال کی عارِضی اُنْسِیّت ،دوستوں کی وقتی مُصَاحَبت اور خُدّام کی خوشامدانہ خدمت کے بھرم میں قَبْر کی تنہائی کو بھولے ہوئے تھے۔مگر آہ! یکایک فَنا کا بادَل گرجا، موت کی آندھی چلی اور دنیا میں تادیر رہنے کی ان کی اُمّیدیں خا ک میں مل کر رہ گئیں ، ان کے مَسرَّتوں اور شادمانیوں سے ہنستے بستے گھرموت نے ویران کردیئے ۔ روشنیو ں سے جگ مگاتے مَحَلات و قُصُور سے اُٹھا کر انہیں گُھپ اندھیری قُبُور میں