قبر کی پہلی رات

ہو کر نکلے گا اور جو نافرمان وگنہگار تھا ، وہ مجھ سے تباہ حال ہو کر نکلے گا۔   (شَرْحُ الصُّدُور ص ۱۱۴، اہوال القبور لابن رجب ص۲۷ دار الغد الجدید، مصر)  

پڑوسی مُردوں  کی پُکار

       منقول ہے: جب مُردے کو قَبْر میں  رکھا جاتا ہے اور اُسے عذاب ہوتا ہے توپڑوسی مُردے اسکو پکار کر کہتے ہیں : اے دنیا سے آ نے والے ! کیا تُو نے ہماری موت سے نصیحت حاصِل نہ کی ؟ کیا تُونے نہ دیکھا کہ ہمارے اعمال کیسے ختْم ہوئے؟ اور تجھے تو عمل کرنے کی مُہْلَت ملی تھی ، لیکن تُو نے وقْت ضائع کر دیا،  قَبْر کا گوشہ گوشہ اسکو پکار کر کہتا ہے: اے زمین پر اِترا کر چلنے والے ! تُونے مرنے والوں  سے عبرت کیوں  حاصل نہ کی ؟ کیا تُونے نہیں  دیکھا تھاکہ تیرے مُردہ رشتہ داروں  کو لوگ اُٹھا اُٹھا کر کس طرح قَبْروں  تک لے گئے۔(شَرْحُ الصُّدُورص ۱۱۶مرکز اہلسنت برکات رضا الہند )

مُردوں  سے گُفتگُو

                                                ’’شَرْحُ  الصُّدُور‘‘میں  ہے :حضر تِ سَیِّدُنا سعید بن مُسیَّب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرما تے ہیں : ایک بار ہم امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا  کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم   کے ہمراہ مدینۂ منوَّرہ کے قَبْرِستان گئے۔حضرتِ مولیٰ علی کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے قَبْر والوں  کوسلام کیا اور فرمایا: اے قَبْر والو!تم اپنی خبر بتاؤ گے یا ہم تمہیں  بتائیں  ؟سَیِّدُناسعید بن مُسیَّب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں  کہ ہم نے قَبْر سے ’’وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ‘‘ کی آواز سنی اور کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا:  یا امیرَالْمُؤمِنِین!آپ ہی خبر دیجئے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوا؟ حضرتِ مولیٰ علیکَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے فرمایا :سُن لو! تمہا رے مال تقسیم ہو گئے، تمہاری بیویوں  نے دوسر ے نکاح کر لئے، تمہاری اَولاد یتیموں  میں  شامل ہوگئی ، جس مکان کو تم نے بہت مضبوط بنایا تھا اُس میں  تمہارے دشمن آباد ہو گئے۔ اب تم اپنا حال سناؤ۔ یہ سن کر ایک قَبْر سے آواز آنے لگی:یا امیرَالْمُؤمِنِین! ہمارے کفن پَھٹ کرتارتار ہوگئے ، ہمارے بال جھڑ کر مُنْتَشِر ہوگئے، ہماری کھالیں  ٹکڑے ٹکڑ ے ہوگئیں ہماری آنکھیں  بہ کر رُخساروں  پر آ گئیں   اور ہما ر ے نَتھنوں  سے پِیپ بہ رہی ہے اور ہم نے جو کچھ آگے بھیجا(یعنی جیسے عمل کئے) اُسی کو پایا ، جو کچھ پیچھے چھو ڑا اُس میں  نقصان ہوا۔ (شَرْحُ الصُّدُورص۲۰۹،ابن عَساکِرج۲۷ص۳۹۵ )

کہاں  ہیں  وہ خوبصورت چِہرے؟

                                                حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکر صِدِّیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ   دَورانِ خُطبہ فرمایا کرتے: کہاں  ہیں  وہ خوبصورت چِہرے والے؟ کہاں  ہیں اپنی جوانیوں  پر اِترانے والے؟ کِدھر گئے وہ بادشاہ جِنہوں  نے عالیشان شہر تعمیر کروائے اور انہیں  مضبوط قَلعوں  سے تَقْوِیَّت بخشی؟ کدھر چلے گئے میدانِ جنگ میں  غالِب آنے والے ؟ بیشک زَمانے نے اُن کو ذلیل کر دیا اور اب یہقَبْر کی تاریکیوں  میں  پڑے ہیں  ۔ جلدی کرو! نیکیوں  میں  سبقت کرو! اورنَجات طَلَب کرو۔(شُعَبُ الْاِیمانلِلْبَیْہَقِی  ج۷ ص۳۶۵ حدیث ۱۰۵۹۵)

ابھی سے تیّاری کر لیجئے

                                                میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!امیرُ الْمؤمنین حضرتِ سَیِّدُنَا صِدِّیق اکبر  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمیں دنیا کی بے ثَباتیوں ،اس کی بیوفائیوں  اورقَبْر کی تاریکیوں کا اِحساس دلا کر خوابِ غفلت سے بیدار فرما رہے ہیں ،قَبْر وحشْر کی تیّاری کا ذِہن دے رہے ہیں ۔ واقِعی عَقْلْمَندْوُہی ہے جو موت سے قَبْل موت کی تیّاری کرتے ہوئے نیکیوں  کا ذخیرہ اِکٹّھا کر لے اورسُنّتوں کا مَدَنی چَراغ  قَبْر میں  ساتھ لیتا جائے اور یوں  قَبْر کی روشنی کا انتِظام کر لے،  ورنہ قَبْرہرگز یہ لحاظ نہ کرے گی کہ میرے اندر کون آیا! امیر ہو یا فقیر وزیرہو یا اُس کا مُشِیر ، حاکم ہو یا محکوم، افسر ہو یا چپراسی، سیٹھ ہو یا مُلازِم ، ڈاکٹر ہو یا مریض، ٹھیکیدار ہو یا مزدور اگرکسی کے ساتھ بھی توشَۂ آخِرت میں  کمی رہی، نَمازیں  قَصدًا قضاکیں  ، رَمَضان شریف کے روزے بلا عُذْرِ شَرعی نہ رکھے ، فَرض ہوتے ہوئے بھی زکوٰۃ نہ دی، حج فرض تھا مگر ادا نہ کیا، باوُجُودِ قدرت شَرعی پردہ نافِذ نہ کیا، ماں  باپ کی نافرمانی کی ،جھوٹ ، غیبت ، چُغْلی کی عادت رہی، فلمیں ، ڈِرا مے دیکھتے رہے ، گانے باجے سنتے رہے ، داڑھی مُنڈواتے یا ایک مٹّھی سے گھٹاتے رہے ۔ اَلْغَرَض خوب گناہوں  کا بازار گَرم رکھا تو  اللہ عَزَّوَجَلَّا ور اُس کے رسولصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی ناراضی کی صورت میں  سوائے حَسرت ونَدامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔جس نے فرائض کے ساتھ ساتھ نوافِل کی بھی پابندی کی ، رَمَضَانُ الْمُبارَککے عِلاوہ نفلی روزے بھی رکھے ،گلی گلی کُوچہ کُوچہ نیکی کی دعوت کی دھومیں  مچائیں ، قراٰنِ پاک کی تعلیم نہ صِرف خود حاصِل کی بلکہ دوسروں  کو بھی دی، ’’چوک دَرس‘‘ دینے میں  ہِچکچاہٹ محسوس نہ کی ،’’ گھر دَرس‘‘ جاری کیا، سنّتوں  کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں  میں  ہر ماہ کم ازکم تین دن سَفَر کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مسلمانوں  کوبھی اسکی رغبت دلائی ، روزانہ مَدَنی اِنْعامات کا رِسالہ پُر کر کے ہرمدنی ماہ کے ابتدائی 10دنوں  کے اندر اندراپنے ذِمّے دار کو جَمْع کروایا،اللہ  عَزَّوَجَلَّ  اور اُسکے پیارے رسول  صلَّی اللّٰہ تعالٰیعلیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضل و کرم سے ایمان سلامت لیکر دنیا سے رخصت ہوا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ    اُس کی قَبْر میں  حشْر تک رحمتوں  کا دریا موجیں  مارتا رہے گا اور نورِ مُصطَفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰیعلیہ واٰلہٖ وسلَّمکے چشمے لہراتے ر ہیں  گے۔

قَبْرمیں  لہرائیں  گے تاحَشْر  چشمے نور کے

جلوہ فرما  ہو گی جب  طَلْعَت رسولُ اﷲ کی

(حدائقِ بخشش شریف)

 

Index