زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی

(خزائن العرفان ص۸۹۸)

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی مقدّس اولاد کی تعداد

      سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چار فرزند ہونے کااگر چِہ ’’خزائنُ العرفان ‘‘  میں  ذِکر ہے مگر اِس میں  اختلاف ہے ،   تین شہزادوں  کابھی قول ہے اور دو کا بھی ۔ چُنانچِہ     ’’ تذکِرۃُ الانبیاء‘‘ صَفْحَہ 827پر ہے:آپ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کے تین بیٹے تھے : قاسم ،   ابراہیم ،   عبدُ اللہ۔ خیال رہے کہ طیِّب، مُطَیَّب، طاہِر اورمُطَہَّر اِنہیں   (یعنی حضرتِ عبدُ اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) کے اَلقاب تھے ، یہ کوئی علیٰحَدہ بیٹے نہیں  تھے۔  (تذکرۃ الانبیاء ص۸۲۷)  حضرتِ علّامہ عبد المصطَفٰے اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی’’سیرتِ مصطَفٰے ‘‘ صفحہ 687پر لکھتے ہیں  : اس بات پر تمام مؤرخین  (مُ۔اَرْ۔رِخین) کا اِتِّفاق ہے کہ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اولاد ِکِرام کی تعداد چھ ہے۔ دو فرزند حضرتِ قاسم و حضرتِ ابراہیم (رضی اللہ تعالٰی عنہما)  اور چار صاحبزادیاں  حضرتِ زینب و حضرتِ رُقَیَّہ و حضرتِ اُمِّ کلثوم و حضرتِ فاطِمہ    (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ) لیکن بعض مؤرخین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایک صاحِبزادے عبدُاللہ (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) بھی ہیں  جن کا لقب طیِّب و طاہِر ہے۔ اس قول کی بنا پر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مقدّس اولاد کی تعداد سات ہے یعنی تین صاحبزادگان اورچار صاحبزادیاں ۔ (سیرتِ مصطفی ص۶۸۷)

   ’’خاتونِ جنّت‘‘   کے آٹھ حُرُوف کی نسبت سےبیٹیوں  کے فضائل پر مَبنی 8فرامینِ مصطَفٰے

       {۱} بیٹیوں  کو بُرا مت سمجھو،   بے شک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں  ہیں  ۔ ([1])   {۲}  جس کے یہاں  بیٹی پیدا ہو اور وہ اُسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّاُس شخص کو جنت میں  داخِل فرمائے گا۔ ([2])  {۳} جس شخص پر بیٹیوں  کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک  (یعنی اچّھا برتاؤ) کرے تو یہ بیٹیاں  اس کے لئے جہنَّم سے روک بن جائیں  گی ۔ ([3])  {۴}  جب کسی کے ہاں  لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ  فِرِشتوں  کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں  :  ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم  اَہْلَ الْبَیْتیعنی اے گھر والو!   تم پر سلامَتی ہو ۔‘‘  پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں  کے سائے میں  لے لیتے ہیں  اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتُواں   (یعنی کمزور)  سے پیدا ہوئی ہے ،   جو شخص اِس ناتواں  جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا، قِیامت تک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی ۔ ([4])  {۵}   جس کی تین بیٹیاں  ہوں  ، وہ ان  کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے ۔عرض کی گئی : اور دو ہوں  تو؟  فرمایا :اور دو ہوں  تب بھی۔ عرض کی گئی : اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا :  ’’ اگر ایک ہو توبھی ۔ ([5])  {۶}  جس کی تین بیٹیاں  یا تین بہنیں  ہوں  یا دو بیٹیاں  یا دو بہنیں  ہوں  پھر وہ اُن کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے مُعامَلے (مُ۔عَا۔مَلے)  میں  اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتارہے تو اُس کیلئے جنت ہے ۔ ([6])  {۷} جس کی تین بیٹیاں  یا تین بہنیں  ہوں  اور وہ ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں  داخل ہوگا ۔ ([7])  {۸}  جس نے اپنی دو بیٹیوں  یا دو بہنوں  یا دو رشتے دا ر بچیوں  پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں  تک کہ اللہ تَعَالٰی انہیں  بے نیاز کر دے (یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں  یا ان کی وفات ہو جائے )   تووہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہوجائیں  گی۔ ([8])

   بیٹی پرماہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شفقت

 



[1]     مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۶ص۱۳۴حدیث۱۷۳۷۸

[2]     المستدرک  ج ۵ ص ۲۴۸ حدیث ۷۴۲۸

[3]     مسلم ص ۱۴۱۴ حدیث ۲۶۲۹

[4]     مجمع الزوائد ج۸ص۲۸۵حدیث۱۳۴۸۴

[5]     معجم الاوسط ج۴ص۳۴۷حدیث ۶۱۹۹مُلَخّصاً

[6]     ترمذی  ج ۳  ص ۳۶۷ حدیث ۱۹۲۳

[7]     ترمذی ج ۳ ص ۳۶۶ حدیث۱۹۱۹

[8]     مسند امام احمد بن حنبل ج۱۰ص ۱۷۹ حدیث۲۶۵۷۸

Index