اوپر دی ہوئی شَرْح میں ’’ عملِ کثیر ‘‘ کاتذکرہ ہے، اِس ضِمْن میں عرض ہے کہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 496 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’نَماز کے اَحکام‘‘ صَفْحَہ242تا 243پر ہے: ’’عملِ کثیر‘‘نماز کوفاسدکر دیتا ہے جبکہ نہ نَماز کے اعمال سے ہونہ ہی اصلاحِ نمازکیلئے کیا گیاہو۔جس کام کے کرنے والے کو دورسے دیکھنے سے ایسا لگے کہ یہ نَماز میں نہیں ہے بلکہ اگرگمان بھی غالب ہوکہ نَمازمیں نہیں تب بھی عمل کثیرہے ۔اور اگردورسے دیکھنے والے کو شک وشبہ ہے کہ نَمازمیں ہے یا نہیں توعمل قلیل ہے اورنماز فاسدنہ ہوگی ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۴۶۴)
گود میں بچّہ لے کر نماز پڑھنے کامسئَلہ
بہارِشریعت جلد1صفحہ 476پر ہے :اگر گود میں اتنا چھوٹا بچّہ لے کر نماز پڑھی کہ خود اس کی گود میں (بچّہ) اپنی سَکَت (یعنی طاقت) سے نہ رُک سکے بلکہ اس (یعنی نمازی) کے روکنے سے تھما ہوا ہو اور اس کا بدن یا کپڑا بَقَدرِ مانِعِ نماز ناپاک ہے، تو نما زنہ ہو گی کہ یہی اسے اْٹھائے ہوئے ہے اور اگر وہ اپنی سَکَت (یعنی طاقت ) سے رُکا ہوا ہے، اِس (یعنی نماز پڑھنے والے) کے روکنے کا محتاج نہیں تو نماز ہو جائے گی کہ اب یہ اسے اُٹھائے ہوئے نہیں پھر بھی بے ضرورت کراہت سے خالی نہیں اگرچہ اس کے بدن اور کپڑوں پر نَجاست بھی نہ ہو ۔
مسکین ماں کا بیٹیوں پر ایثار (حکایت)
اُمُّ الْمؤمِنینحضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں بھی تھیں ، میں نے اُسے تین کھجوریں دیں ۔ اُس نے ہر ایک کو ایک ایک کَھجور دی ، پھر جس کھجور کو وہ خود کھانا چاہتی تھی اُس کے دوٹکڑے کر کے وہ کھجور بھی اُن (یعنی دونوں بیٹیوں ) کو کھلا دی ۔مجھے اس واقعے سے بَہُت تَعَجُّب ہوا ، میں نے نبیِّ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس خاتون کے ایثار کا بیان کیا توسرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اِس (ایثار) کی وجہ سے اُس عورت کے لئے جنّت واجِب کردی۔ ‘‘ (مسلم حدیث۲۶۳۰ ص۱۴۱۵)
مَا شَآءَ اللہ! ’’ایثار‘‘ کی بھی کیا بات ہے ! کاش ! ہم بھی اپنی پسند کی چیزیں ایثار کرنا سیکھ جاتے! ترغیب وتَحریص کیلئے یہ حدیثِ پاک سنئے: فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُ س خواہِش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے، تواللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے بخش دیتا ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج ۳ص۱۱۴)
دینے میں بیٹیوں سے پہل کرنے کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، شہنشاہ ِآدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظَّم ہے:’’جو بازار سے اپنے بچّوں کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان (یعنی بچّوں ) پر صَدَقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہیے کہ بیٹیوں سے ابتِدا کرے کیونکہ اللہ تعالٰی بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں پر رحمت وشفقت کرے وہ خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے اللہ تعالٰی بروزِ قیامت اُسے خوش کرے گا ۔‘‘ (اَلْفِردَوس ج۲ص۲۶۳ حدیث۵۸۳۰)
صدکروڑ افسوس! آج کل مسلمانوں کی ایک تعداد ’’بیٹی ‘‘ کی پیدائش کو ناپسند کرنے لگی ہے ! اور بعض ماں باپ پیٹ میں بچّہ ہے یا بچّی اِس کی معلومات کے لئے الٹراساؤنڈ بھی کروا ڈالتے ہیں ! پھر رپورٹ میں بیٹی کی نشاندہی کی صورت میں بعض تو (مَعَاذَ اللہ) حَمْل ضائع کروانے سے بھی دَریغ نہیں کرتے ۔ الٹرا ساؤنڈ کروانے کا اَہم مسئلہ ذِہن نشین فرما لیجئے: اگر مَرَض کا علاج مقصود ہے تو اُس کی تشخیص (تَشْ۔خِیْص۔یعنی پہچان) کیلئے بے پردَگی ہو رہی ہو تب بھی ماہِر طبیب کے کہنے پر عورت کسی مسلمان عورت (اور نہ ملےتو مجبوری کی صورت میں مرد وغیرہ) کے ذَرِیعے الٹرا ساؤنڈ کروا سکتی ہے۔ لیکن بچّہ ہے یا بچّی اس کی معلومات حاصل کرنے کا تعلُّق چُونکہ علاج سے نہیں اور الٹراساؤنڈ میں عورت کے سَتْر (یعنی ان اعضاء مَثَلاً ناف کے نیچے کے حصّے) کی بے پردَگی ہوتی ہے لہٰذا یہ کام مرد تو مر د کسی مسلمان عورت سے بھی کروانا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔
الٹرا ساؤنڈ کی غَلَط رپورٹ نے گھر اُجاڑ دیا (درد ناک حکایت)