زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی

           حضرتِ سیِّدَتُنا بی بی فاطِمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب محبوبِ ربُّ العزّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت ِ سراپا شفقت میں  حاضِر ہوتیں  تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہو کران کی طرف متوجِّہ ہو جاتے ، پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ میں  اُن کا ہاتھ لے کراُسے بوسہ دیتے پھر اُن کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے ۔ اسی طرح جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیِّدَتُنا بی بی فاطِمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاں  تشریف لے جاتے تو وہ دیکھ کر کھڑی ہو جاتیں  ،   آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں  لے کر چُومتیں اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔    (ابوداوٗد ج۴ ص۴۵۴حدیث ۵۲۱۷)

بڑی شہزادی کو ظالم نے نیزہ مار کر۔۔۔

      حضرتِ سیِّدَتُنازینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارسول اکرم ،   نورِ مجسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں  جو کہ اِعلانِ نُبُوَّت سے دس سال قبل مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفَا وَّتَعْظِیْمًامیں  پیدا ہوئیں  ۔ جنگ ِ بَدْر کے بعد حُضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو مکّۂ مکرَّمہزَادَھَا اللہُ شَرَفَا وَّتَعْظِیْمًا سے مدینۂ منوَّرہزَادَھَا اللہُ شَرَفَا وَّتَعْظِیْمًابلالیا ۔ جب یہ ہجرت کے ارادے سے اُونٹ پر سُوار ہوکرمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفَا وَّتَعْظِیْمًا سے باہَر نکلیں  تو کافروں  نے ان کا راستہ روک لیا ،    ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اُونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کی وجہ سے ان کاحَمْل ساقِط ہوگیا  (یعنی بچّہ اسی وقت پیٹ میں  ہی فوت ہو گیا) ۔   نبیِّ کریم ،   رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم کو اس واقِعے سے بَہُت صدمہ ہوا۔چُنانچِہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے فضائل میں  ارشادفرمایا : ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ یعنی  ’’یہ میری بیٹیوں  میں  اس اعتبار سے افضل ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں  اتنی بڑی مصیبت اٹھائی ۔ ‘‘  جب 8 ہجری میں  حضرتِ سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا انتِقال ہوگیا تو سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارَک ہاتھوں  سے انہیں  قبر میں  اُتارا ۔  (شَرْحُ الزَّرْقانی عَلَی الْمَواہِب ج۴ص۳۱۸ماخوذاً)

نواسی کو انگوٹھی عطا فرمائی

           اُمُّ الْمؤمِنین  حضرتِ  سیِّدَتُناعائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں  : نَجّاشی بادشاہ نے سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ بابرکت میں  کچھ زیورات کی سوغات بھیجی جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی ۔ اللہ کے پیارے نبی،   مکّی مَدَنی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُس انگوٹھی کو چھڑی یا مبارَک اُنگلی سے مَس کیا (یعنی چُھوا )  اور اپنی بڑی شہزادی سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی اُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو بلایااور فرمایا :’’اے چھوٹی بچَّی !  اسے تم پہن لو ۔‘‘ (ابوداوٗدج ۴ ص ۱۲۵ حدیث ۴۲۳۵ )

نواسی اپنے نانا جان کے مبارک کندھے پر

          ’’بخاری شریف‘‘ میں  ہے:حضرتِ سیِّدُناابوقتا دہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں  : اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ  (اپنی نواسی) اُمامہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے مبارَک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں  جاتے وقت انہیں  اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں  اُٹھا لیتے ۔      (بُخاری ج۴ص۱۰۰حدیث۵۹۹۶)

حدیثِ پاک کے نماز والے حصّے کی شَرح

          شارِحِ بُخاری مفتی شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں  :  چھوٹے بچے کو گود میں  لے کر نماز پڑھنے کے بارے میں   (بعض لوگوں  کا)  یِہی خیال ہے کہ نَماز نہیں  ہوگی، اس واہِمے  (یعنی گمان،   خیال)  کو ختم کرنے کے لئے امام بُخاری     (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی) نے یہ باب باندھا اور یہ حدیث ذِکر فرمائی۔اگر چھوٹے بچّے کا جسم اور کپڑے پاک ہوں  اور اُتارنے اور گودمیں  لینے میں  ’’ عملِ کثیر‘‘ نہ ہوتا ہو تو چھوٹے بچے کو گود میں  لے کر نماز پڑھنے میں  کوئی حَرَج نہیں ۔ (نزہۃ القاری ج۲ص۱۹۸)   ’’تفہیم البخاری‘‘ میں   اس حدیثِ پاک کے تحت ہے :سیِّدِ عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیانِ جواز کے لئے اس طرح کیا تھا ،   یہ آپ  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے لئے مکروہ نہ تھا (بلکہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں  باعثِ ثواب تھا) ۔   (تفہیم البخاری ج اص۸۶۴)

’’عملِ کثیر‘‘کی تعریف

 

Index