’’ میں نے آج کے کھانے میں سُوکھی روٹی کھائی ہے۔ ‘‘ یہ فرما کر تَوَے سے نیچے اُتر آئے اور حاضِرین سے فرمایا: اب آپ حضرات بھی باری باری اِس تَوے پر کھڑے ہوکر جو کچھ ابھی کھایا ہے اُس کا حساب دیجئے ۔ یہ سُن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ، بَیَک زَبان بول اُٹھے: یاسیِّدی! ہم میں اس کی طاقت نہیں ، (کہاں یہ گرْم گرْم تَوَا اور کہاں ہمارے نَرم نَرم قدم! ہم تو گنہگا ر دنیا دار لوگ ہیں ) آپ نے فرمایا: جب اِس دُنیوی گَرْم تَوے پر کھڑے ہوکرآج صِرْف ایک وَقْت کے کھانے کی نعمت کا حساب نہیں دے سکتے تو کل بَروزِ قِیامت آپ حَضرات زِندَگی بھر کی نعمتوں کا حساب کس طرح دیں گے! پھرآپ نے پارہ 30 کی آخِری آیت کی تلاوت فرمائی :
ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠(۸)
ترجَمۂ کنز الایمان: پھر بے شک ضَرور اُس دن تم سے نعمتوں سے پُرسِش ہوگی۔
یہ رِقّت انگیز ارشاد سن کر لوگ دھاڑیں مار کر رونے او ر گناہوں سے توبہ توبہ پکارنے لگے۔ (مُلَخَّص ازتذکرۃ الاولیائ، الجزء الاوّل ص اللہکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے)[1](کو لجانا)[2](کیا ہے(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم خواہ روئیں یا ہنسیں ، جاگیں یا غفلت کی نیند سوتے رہیں قِیامت کا امتِحان بر حق ہے۔ ’’ تِرمِذی شریف ‘‘ میں اِس امتِحان کے بارے میں فرمایا جارہا ہے: انسان اُس وَقْت تک قِیامت کے روز قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک کہ ان پانچ سُوالات کے جوابات نہ دے لے {۱} تم نے زندَگی کیسے بسر کی؟ {۲} جوانی کیسے گزاری ؟ {۳} مال کہاں سے کمایا ؟ اور {۴} کہاں کہاں خرچ کیا؟ {۵} اپنے عِلم کے مطابِق کہاں تک عمل کیا؟ (تِرمِذی ج۴ ص۱۸۸ حدیث۲۴۲۴)
آج دنیا میں جس طالبِ علم کا امتِحان قریب آجا ئے وہ کئی روزپہلے ہی سے پریشان ہوجاتا ہے، اُس پر ہر وقت بس ایک ہی دُھن سُوار ہوتی ہے: ’’ امتِحان سر پر ہے ‘‘ وہ راتوں کو جاگ کر اس کی تیّاری اور اَ ہَم سُوالات پر خوب کوشِش کرتا ہے کہ شاید یہ سُوال آجائے شاید وہ سُوال آجائے، ہراِمکانی سُوال کو حل کرتا ہے حالانکہ دنیا کا امتِحان بہت آسان ہے ، اِس میں دھاندلی ہوسکتی ہے ، رِشوت بھی چل سکتی ہے، جبکہ اس کا حاصِل فَقَط اتناکہ کامیاب ہونے والے کو ایک سال کی ترقّی مل جاتی ہے جبکہ فیل ہونے والے کوجیل میں نہیں ڈالا جاتا، صِرف اتنا نقصان ہوتا ہے کہ ایک سال کی ملنے والی ترقّی سے اُس کو مَحروم کردیاجاتا ہے۔دیکھئے تو سہی! اِس دُنْیوی امتِحان کی تیّاری کیلئے انسان کتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے، حتّٰی کہ نیند کُشا گولیاں کھا کھاکر ساری رات جاگ کر اس امتِحان کی تیّاری کرتا ہے مگر افسوس! اُس قِیامت کے امتِحان کیلئے آج مسلمان کی کوشِش نہ ہونے کے برابر ہے جس کا نتیجہ کامیاب ہونے کی صورت میں جنّت کی نہ ختم ہونے والی ابدی راحتیں اور فیل ہونے کی صورت میں دوزخ کی ہولناک سزائیں !
پیشتر مرنے سے کرنا چاہئے
موت کا سامان آخِر موت ہے