قیامت کا امتحان

گناہوں کے آلات

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  پہلے پَہَل ریڈیوپاکستان پر ’’  آپ کی فرمائش ‘‘ کے عُنوان سے ریڈیو پر گا نے سنائے جاتے تھے مگر ہر کسی کو اُ س کی اپنی مرضی کے مطابق پھر بھی گا نا سننا نہیں ملتا تھا، پھر  ٹیپ ریکارڈر کا سلسلہ چلا اور ہر کوئی اپنی مَرضی کے گا نے سننے لگا ۔ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے میں تو ٹیپ ریکارڈرمیں بیان اورنعتیں وغیرہ سنتا ہوں ،  آپ دُرُست فرماتے ہیں مگر میں اکثریَّت کی بات کررہا ہوں ،  یقینا اب ہزاروں بلکہ لاکھوں میں شاید کوئی مسلمان ایسا ہو جو فَقَط تلاوت ، نعتیں اور بیان سننے کیلئے ٹیپ ریکارڈ خریدتا ہو،  اکثریت گا نے ہی سننے کیلئے لیتے ہیں ۔ بلکہ کئی بار سنّتوں کا درد رکھنے والے اسلامی بھائی مجھ سے اپنا دکھ بیان کرتے ہیں کہ ہم جب کبھی آپ کے سنّتوں بھرے بیان کی کیسٹ چلاتے ہیں ،  گھر والے لڑائی کر تے اور زبردستی فلمی گا نوں کے کیسٹ چلاتے ہیں ہماری تذلیل کرتے اور سگِ مدینہ عفی عنہ کو بھی برا بھلا کہتے ہیں ۔آہ! !  

ٹھکرائے کوئی دُرکارے کوئی ،  دیوانہ سمجھ کر مارے کوئی

سلطانِ مدینہ لیجے خبر ہوں آپ کے خدمتگا روں میں

T.V.کب ایجاد ہوا؟

          لوگوں کو مزیدعیّاشیوں میں دھکیلنے کیلئے شیطان نے 1925؁ء میں T.V. چلوا دیا۔ شُروع شُروع میں یہ غیر مسلموں کے پاس ہی تھا،  اس کے بعد مسلمانوں کے پاس اور پاکستان میں بھی آ پہنچا۔ شُروع شُروع میں بڑے شہروں کے خاص خاص پارکو ں وغیرہ میں لگا یا جاتا تھا اور اس پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوتی تھی،  پھر آہستہ آہستہ اس نے گھروں میں گُھسنا شروع کردیا، لیکن ابھی وہ بلیک اینڈ و ائٹ تھا،  اس کے بعد مزیدتفریح کیلئے رنگین T.V. بھی ایجاد ہو گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد پاکستان میں V.C.R. کی آمد ہوئی اور  گھروں میں غیر قانونی سینما گھر کھل گئے اور لوگ چُھپ کر دس دس روپے میں فلمیں دیکھنے لگے۔انہیں دنوں اخبار وں میں یہ خبر آئی کہ کراچی کیلئے V.C.R .کے اتنے اتنے لائسنس جاری کردئیے گئے! اب فلمیں دیکھنے کاجو ’’  جرم ‘‘  لوگ رشوتیں دیکر اور چُھپ چُھپ کرکرتے تھے اُسی گناہ کو مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ’’ قانونی تحفُّظ ‘‘  حاصِل ہوگیا !   اور طرح طرح کی گناہوں بھری گندی فلموں کی نحوستیں لئے  V.C.R.گھر گھر آگیا۔یاد رکھئے ! ا گر مُلکی قانون کسی گناہ کو جائز کردے تو وہ جائز نہیں ہوجاتا۔

کب گُناہوں سے کنا را میں کروں گا  یارب!

نیک کب اے مِرےاللہ بنوں گا  یا رب!

جہنَّم میں کُودنے کی دھمکی

          ایک بارکسی نوجوان نے سگِ مدینہ عفی عنہ سے کہا: میں نے بابُ المدینہ کراچی کے عَلاقے رنچھوڑ لائن میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ایک اجتماع میں سنّتوں بھرا بیان سن کر داڑھی مبارَک کی سُنّت اپنے چہرے پر سجالی ہے ۔میری ماں مجھے داڑھی رکھنے سے مَنْع کرتی اوردھمکی دیتی ہے کہ اگر تم نے داڑھی نہیں کاٹی تو میں زَہر کھا کر مر جاؤنگی۔یہ نوجوان کوئی کافِر زادہ نہیں مسلمان کا لڑکا تھا، اس کی مسلمان کہلوانے والی ماں اسے سُنّت سے روکتے ہوئے خودکُشی کی دھمکی دیتی تھی،  گویا کہتی تھی:  بیٹا! داڑھی مُنڈوا دے ورنہ جہنّم میں چھلانگ لگا دونگی!  آہ!  مسلمان کہلانے والوں کی سنّتوں سے اِس قدَر دُوری !  اَلْاَمان وَالْحفیظ ۔

وہ دور آیا کہ دیوانۂ نبی کیلئے

ہر ایک ہاتھ میں پتّھر دکھائی دیتا ہے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  یاد رہے!  داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے گھٹانا دونوں گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام ہیں اور ماں باپ اگر کسی گناہ کا حکم دیں تو اُن کی وہ بات نہیں مانی جائے گی کہ حدیثِ پاک میں ہے:  ’’  لَاطَاعَۃَ فِیْ مَعصِیَۃِ اللّٰہِ اِنَّمَاالطَّاعَۃُ فِی الْمَعرُوْفِ۔ ‘‘  یعنی کی

Index