قیامت کا امتحان

قبر کی روشنی کا احساس نہ رہا

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا میں رہنے کیلئے مکانات بَہُت وسیع و عریض بنائے جاتے ہیں لیکن افسوس!  قبر سنّت کے مطابِق نہیں بن پاتی۔  ۱ ؎    گھروں کی فراخی کا توخیال ہے لیکن قبر کی وُسعت کا ہمیں کوئی احساس نہیں ، دُنیا کے روشن مستقبل کی تو ہرایک کوفکر ہے مگر قبر کی روشنی کی طرف کسی کا دھیان نہیں ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو قبر بھی مُستَقبِل میں شامل ہے۔گھر میں روشنی کا سب اہتِمام رکھیں گے مگر قبر کی روشنی کی کسے فکر ہے ؟ مال بڑھانے کی ہر ایک کو جُستجو ہے مگر نیک اعمال بڑھانے کی کسی کو نہیں پڑی ہے! جان کی سلامتی کیلئے انتہائی فکر مند ہیں مگر ایمان کی سلامتی کاشُعوربہت کم ہوگیا۔

ع       مال سلامت ہر کوئی منگے دین سلامت کوئی ہو

شِفاخریدی نہیں جاسکتی

          یاد رکھئے ! دولت سے دوا تو مل سکتی ہے لیکن شِفا خریدی نہیں جا سکتی،  اگر دولت سے شِفا مل سکتی ہوتی تو بڑے بڑے امیر زادے ہَسپتالوں میں اَیڑیاں رگڑ رگڑ کرہر گز نہ مرتے ! دولت مصیبتوں اور پریشانیوں کا علاج نہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ حلا ل طریقے سے مال و دولت کمانا اور اُس کو جمع کر کے رکھنا شرعاً جائز ہے جب کہ اس کے حقوقِ واجبہ ادا کرتا رہے۔ مگر دولت کی کثرت کی حِرص اچھّی بات نہیں ،  اِس کے مَنفی اثرات(Side Effects)کثیر ہیں ۔ دولت کی زِیادت عموماً مَعصیت کی طرف بَہُت تیزی سے لے جاتی ہے،  نیزآج کل دولت کی کثرت اکثر مصیبت کاپیش خیمہ بنتی ہے ،  ڈاکے زیادہ تر مالداروں ہی کی کوٹھیوں پر پڑتے ہیں ،  عُموماً مالداروں ہی کے بچّے اِغوا کئے جاتے ہیں ،  دھاڑِیَل (ڈاکو)چِٹھیاں بھیج کر سرمایہ داروں ہی سے بھاری رقمیں طلب کرتے ہیں ، فی زمانہ دولت کی کثرت سے سُکونِ قلب ملنا توکُجا اُلٹا بہت سو ں کاچَین بربادہوا جاتا  ہے،  پھر بھی حیرت ہے کہ لوگ دولت کی جستجو میں مارے مارے پھرتے اورحلال حرام کی تمیز اٹھا دیتے ہیں ۔

جُستُجو میں کیوں پھریں مال کی مارے مارے

ہم تو سرکار کے ٹکڑوں پہ پلا کرتے ہیں

مالداریاں اور بیماریاں

           بڑے بڑے دولت مند دیکھے ہیں ،  جو طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتَلا ہیں ،  کوئی اولاد کے لئے تڑپتا ہے، کسی کی ماں بیمار ہے، کسی کا باپ مر یض تو کوئی خود مُوذی بیماری میں گرِ فتار ہے، کتنے مالدار آپ کو ملیں گے جو  ’’  ہارٹ اٹیک ‘‘  سے دوچار ہیں ، کئی شُوگر کی زیادتی کا شکارہیں اور بیچارے میٹھی چیز نہیں کھا سکتے۔طرح طرح کی کھانے کی اَشیاء سامنے موجود مگراَرَب پتی سیٹھ صاحِب چکھ تک نہیں سکتے۔ بے چارے دولت و جائیداد کے تصوُّر سے دل بہلاسکتے ہیں ، پھر بھی دولت کا نشہ عجیب ہے کہ اُترنے کا نام ہی نہیں لیتا!  یقین جا نئے!  حلال و حرام کی پرواہ کئے بِغیردَھن کماتے چلے جانا صِرف اورصرف نادان انسان کی دُھن ہے،  اتنا نہیں سوچتا کہ آخِر اتنی دولت کہاں ڈالوں گا ؟   فُلاں فُلاں سرمایہ دار بھی تو آخِرموت کے گھاٹ اُترگیا!  اس کی دولت اسے کیا کام آئی؟ اُلٹاہوا یہ کہ وارِثوں میں وِرثے کی تقسیم میں لڑائیاں ٹھن گئیں ،  دشمنیاں ہوگئیں ، کورٹ میں پہنچ گئے اوراخباروں میں چَھپ گئے اورخاندانی شرافتوں کی دھجیاں بکھر گئیں ۔   ؎

دولتِ دنیا کے پیچھے تُو نہ جا        آخِرت میں مال کا ہے کام کیا!

مالِ دنیا دو جہاں میں ہے وَبال     کام آئے گا  نہ پیشِ ذوالجلال

قبر کے سُوال و جواب

           میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کبھی کبھی اس طرح سوچئے!  کہ میرا لاشہ منوں مٹّی تلے قبرمیں دفْن کرکے اَحباب چلے جائیں گے۔یہ خوشنُما گلستاں ،  لہلہاتی کھیتیاں ، نئے ماڈل کی چمکیلی گا ڑیاں ، عالیشان کوٹھیاں وغیرہ کچھ بھی کام نہیں آئے گا ۔ دو خوفناک شکلوں والے  فِرِشتے  مُنکَر نَکِیْر قبر کی دیواریں چیرتے ہوئے تشریف لائیں گے،  لمبے لمبے سیاہ بال سر سے پاؤں تک لٹک رہے ہونگے،  آنکھیں آگ برسارہی ہونگی،  اب امتِحان شروع ہوگا ، پیار سے

Index