قیامت کا امتحان

کیا بنے گا  ،  میں تو دنیا کی رنگینیوں میں کھویا رہاہوں ، بہتر سے بہترین لذتوں والی غذاؤں اوردُنیوی نعمتوں کا شوقین رہا ہوں جبکہ روایت میں آیاہے:  بے شک سکراتِ موت کی شدّت دنیا کی لذت کے مطابِق ہے،  تو جس نے زیادہ لذّتیں اٹھائیں اُسے نَزع کی تکلیف بھی زیادہ ہو گی۔)[1](پھر وہ وقت بھی آہی جائے گا  کہ میرے نام کا شور پڑا ہو گا  کہ اُس کا انتِقال ہوگیا،  جلدی جلدی غَسّال کو لے آؤ!  اب غَسّال تختہ اُٹھا کر چلاآرہا ہوگا  ، مُردہ جسم پر چادر اُڑھی ہوگی،  سر سے ٹَھوڑی تک منہ بندھا ہوگا ،  پاؤں کے دونوں انگوٹھے باندھ دئیے گئے ہوں گے،  غَسّال ہی غسل دے گا ، کفن پہنائے گا ، بیٹا نہ غسل دے گا ،  نہ ہی کفن پہنائے گا  کیوں کہ جوں ہی اس نے ہوش سنبھالامیں نے اس کو اسکول کا دروازہ دکھایا،  بڑا ہوا تو کالج میں داخِلہ دلایا ، پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ بھجوایا ،  دنیاوی امتِحانات کی تیّار ی کاخوب شوق بڑھایااگرنہیں پڑھایا تو دین نہیں پڑھایا!  غسلِ میِّت یہ خاک دے گا !  اسے تو خود اپنے زندہ وُجُود کے غسل کی سنّتیں بھی نہیں معلوم ، ہاں ہاں !  باپ کی آخِری خدمت یہ بھی ہے کہ اس کا بیٹاہی نہلائے ،  کفن پہنائے،  نَمازِجنازہ بھی پڑھائے اوراپنے ہاتھوں سے ہی دفنائے ۔ظاہِر ہے اگر بیٹا غسل دیگا  تو رِقّت کے ساتھ رو رو کر اور سنّتوں کو ملحوظ رکھ کر دے گا  جبکہ کرائے کا غَسّال ہوسکتا ہے جُوں تُوں پانی بہا کر ، کفن پہنا کر ،  پیسے جیب میں سَرکا کر چلتا بنے ۔

میّت پر نوحہ کرنے کا عذاب

          اب جنازہ اُٹھایا جائیگا  ، گھر کی عورَتیں چیخیں گی ،  واویلا کریں گی، میں نے ان کو اس سے کبھی منع نہیں کیا تھا کہ میِّت پر نَوحہ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے حدیثِ پاک میں ہے:  ’’ نوحہ کرنے والی نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کی، تو قِیامت کے دن اِس طرح کھڑی کی جائے گی کہ اُس پرایک کُرتا قَطر ان( یعنی رال) کا ہوگا  اور ایک کُرتا جَرَب (یعنی کُھجلی) کا۔(مُسلِم ص۴۶۵ حدیث۹۳۴)

جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ

           بَہرحال جنازہ اٹھا کر لوگ چل پڑینگے ، بیٹا شاید صحیح طرح سے کندھا بھی نہیں دے سکے گا  کیونکہ میں نے اس کو سِکھایا ہی کب تھا! اس غریب کو کیا پتا کہ سنّت کے مطابِق کندھا کس طرح دیتے ہیں ؟ جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ بھی سُن لیجئے،  دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ،  بہارِ شریعت جلد اوّل صَفْحَہ 822پر ہے: سنَّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنّت یہ کہ پہلے دہنے سرہانے کندھا دے پھر دہنی پائنتی پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے۔

جنازے کو کندھا دینے کے فضائل

        حدیثِ پاک میں ہے:  ’’ جو جنازے کو چالیس قدم لے کر چلے اُس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹادئیے جائیں گے ‘‘  (المبسوط ج۱جز۲ص۸۸) ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ہے:  ’’ جو جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی حتمی( یعنی مستقل)  مغفرت فر ما دے گا  ۔ ‘‘ (الجوھرۃ النیرۃج ۱ ص۱۳۹)

بالآخِرمیرے ناز اٹھانے والے اپنے ہاتھوں سے مجھے تنگ و تاریک قبر میں اتار کر اوپر منوں مٹّی ڈال کر تنہا چھوڑ کر چلدیں گے۔ آہ!

قبر میں مجھ کو لِٹا کر اور مِٹّی ڈال کر         چل دیے سا تھی نہ پاس اب کو ئی رِشتے دار ہے

خواب میں بھی ایسا اندھیرا کبھی دیکھا نہ تھا          جیسا اندھیرا ہماری قبر میں سرکار ہے

یا رسولَ  اللّٰہ !    آکر  قبر  روشن  کیجئے

ذات بے شک آپ کی تو مَنبعِ انوار ہے(وسائلِ بخشش شریف)

 



6   منہاج العابدین ص۸۵

Index