میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سچے عاشق رسول کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتا ہے، یوں سنت نبوی کو عملی طور پر اپنانے کی وجہ سے عاشقِ صادق کا دل عشق مصطفے میں تڑپتا ہے ۔ حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کا ہر عمل سنت مصطفے کی عملی تصویر ہوا کرتا ، آپ اپنی گفتگو ، چلنے پھرنے اور زندگی کے دیگر معمولات سنّت کے مطابق گزارتے، سنّتوں کی برکت سے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جو مقام و مرتبہ نصیب ہوا اس کے متعلّق آپ خود ارشاد فرماتے ہیں : نبی ٔ کریم ، رء وف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے کمالِ اتباع (یعنی مکمل پیروی) کی وجہ سے مجھے ایسے مقام سے سرفراز کیا گیا جو ’’ مقامِ رضا‘‘ سے بھی بلند وبالا ہے۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۷۷) سنّتوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت بڑی سعادت ہے کہ اس کی برکت سے مقام ِ محبوبیت نصیب ہوتا ہے جیسا کہ آپ رحمۃ اللہخود ارشاد فرماتے ہیں : ’’ہر وہ چیز جس میں محبوب کے اخلاق و عادات پائی جائیں محبوب کے ساتھ وابستگی اور اس کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ بھی محبوب اور پیاری ہوجاتی ہے، اس کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے:
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۳۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔
لہٰذا اللہ تَعَالٰی کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی میں کوشش کرنا بندے کو مقامِ محبوبیت تک لے جاتا ہے، تو ہر عقلمند پر لازم ہے کہ اللہ تَعَالٰی کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اتباع میں ظاہراً و باطناً پوری کوشش کرے۔ ‘‘ (مکتوباتِ امام ِربّانی، دفتر اول، حصہ دوم، مکتوب۴۱ ج۱ص۵)
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تصانیف میں سے فارسی ’’مکتوبات امام ربّانی‘‘ زیا دہ مشہو ر ہوئے ۔ ان کے عر بی، اردو، ترکی اورانگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چاررسائل کے نام مُلاحَظہ ہوں : (۱) اِثْباۃُ النُّبُوَّۃ (۲) رِسالہ تَہْلِیْلِیَّہ (۳) معارفِ لَدُنِّیَّہ (۴) شرحِ رُباعیات ۔
مجدّدِ الفِ ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے 11 اَقوال
٭حلال و حرام کے معاملے میں ہمیشہ باعمل علما سے رجوع کرنا چاہیے اور ان کے فتاوٰی کے مطابق عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات کا ذریعہ شریعت ہی ہے ۔ (ایضاً، حصہ سوم، مکتوب۱۶۳ ج۱ص۴۶)
٭احکامِ شریعت کی صحیح نوعیت علمائے آخرت سے معلوم کیجیے ان کے کلام میں ایک تاثیر ہے، شاید ان کے مبارک کلما ت کی برکت سے عمل کی بھی توفیق مل جائے ۔ (ایضاً، حصہ دوم، مکتوب۷۳ ج۱ص۵۹)
٭ تمام کاموں میں ان باعمل علمائے کرام کے فتاوٰی کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے جنہوں نے ’’عزیمت‘‘ کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور ’’رخصت‘‘ سے اجتناب کرتے (یعنی بچتے) ہیں نیزاس کو نجاتِ ابدی و اُخروی کاذریعہ و وسیلہ قرار دینا چاہیے۔ (ایضاً، مکتوب۷۰ ج۱ص۵۲)
٭ نجاتِ آخرت تما م افعال و اقوال، اصول و فرو ع میں اہلسنّت کی پیروی کرنے پر موقوف ہے ۔ (ایضاً، مکتوب۶۹ ج۱ص۵۰)
٭ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسایہ نہ تھا۔ (ایضاً، دفتر سوم ، حصہ نہم، مکتوب۱۰۰ ج۲ص۷۵)
٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے خاص علمِ غیب پر اپنے خاص رسولوں کو مطلع (یعنی باخبر) فرماتا ہے۔ (ایضاً، دفتر اول، حصہ پنجم، مکتوب۳۱۰ ج۱ص۱۶۰)
٭حضورشاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ کوذِکرِ خیر (بھلائی) کے ساتھ یاد کرنا چاہئے۔ (ایضاً، حصہ چہارم، مکتوب ۲۶۶ ج۱ص ۱۳۲)
٭ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ میں سب سے افضل حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیِّدُنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، ان دونوں باتوں پر صحابۂ کرام اور تابعین کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اجماع ہے، نیز امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیھم اَجْمَعِیْنَاور اکثر علمائے اہلسنّت کے نزدیک حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تمام صحابۂ کرام میں سب سے افضل سیِّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
ہیں ، پھر ان کے بعد سب سے افضل سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہیں ۔ (ایضاً، مکتوب۲۶۶ ج۱ص ۱۲۹، ۱۳۰ ملخصا)
٭مجلس میلاد شریف میں اگر اچّھی آواز کے ساتھ قراٰنِ کریم کی تلاوت کی جائے، نعت شریف اور صحابہ و اہل بیت و اولیائے کاملین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَکی منقبت پڑھی جائے تو اس میں کیا حرج ہے! (مکتوبات ِ امامِ ربّانی، دفترسوم، حصہ ہشتم ، مکتوب۷۲ ج۲ص۱۵۷ ملخّصًا)
٭حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کمالِ محبت کی علامت یہ ہے کہ آدمی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں سے کامل دشمنی رکھے ۔ (ایضاً، دفتراول، حصہ سوم ، مکتوب۱۶۵ ج۱ص۴۸ ملخّصًا)