تذکرۂ مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی

٭حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :   گانے بجانے کی خواہش مت کیجیے ،   نہ اس کی لذّت ہی پرفدا ہوں کیوں کہ یہ شہد ملا قاتل زہر ہے۔   (ایضاً ،  دفتر سوم،  حصہ ہشتم ،   مکتوب ۳۴ ج ۲ ص ۸۶ ملخّصًا) 

کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  گانے باجے سننا سنانا شیطانی اَفعال ہیں ،  سعادت مندمسلمان ان چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔  گانے باجوں سے بچنا بے حد ضروری ہے کہ اس کا عذاب کسی سے بھی نہ سہا جاسکے گا۔  حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے:   جو شخص کسی گانے والی کے پاس بیٹھ کر گانا سنتا ہے قیامت کے دن اللہ  عَزَّ وَجَلَّاس کے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ انڈیلے گا۔   (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج ۷ ص ۲۵۴ حدیث ۲۲۸۴۳

مَناقِبِ غوثِ صمدانی بزبانِ مجدد الفِ ثانی

             دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ561 صَفحات پر مشتمل کتاب ،   ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘  صَفْحَہ 422پر ہے:  حضرتِ مجدد اَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :  جو کچھ فُیُو ض و برکات کا مجمع ہے وہ سب سرکارِ غوثیت سے ملے ہیں ۔   نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِنْ نُورِ الشَّمْس یعنی چاند کی روشنی سورج کے نور سے مستفاد ہے ۔    (مکتوبات ِ امام ربّانی،  دفترسوم ،  حصہ نہم ،  مکتوب۱۲۳ ج۲ص۱۴۵ ملخّصًا) 

مجدِّدِ اَلفِ ثانی اور اعلٰی حضرت

 (پانچ ملتی جلتی صفات) 

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!   اعلیٰ حضرت ،  امامِ اہلِسنّت ،  مجدِّدِ دین وملّت ،  مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی مبارک حیات  کے کئی گوشے ایسے ہیں جن میں حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی سیر ت کی جھلک نظر آتی ہے بلکہ تعلیم و تربیت،   دینی خدمات حتّٰی کہ وصال کے مہینے میں بھی یکسانیت ہے۔   اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :    {۱حضرت سیِّدُنا  مجدّد الف ثانی اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما دونوں کا نام احمد ہے  {۲دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے والد سے علمِ دین حاصل کیا  {۳دونوں حضرات  کی تمام عمر اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی میں بسر ہوئی{۴دونوں صاحبان نے کبھی بھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکا یا  {۵دونوں اولیائے کرام کا وصال صفر المظفر میں ہوا۔   

مکتوباتِ امامِ ربّانی اور اعلٰی حضرت

             اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے ایک مکتوب میں ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ سے ایک فرمان نقل کر کے حضرت مجد د الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے فرمان کو ارشادِ ہدایت قرار دیا ہے چنانچہ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے اپنے ایک اہل ِ محبت کو گمراہ لوگوں کی صحبت کے نقصانات سمجھاتے  ہوئے لکھتے ہیں :   آپ جیسے صوفی صافی منش کو حضرت سیِّدُنا شیخ مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ایک ارشاد یاد دلاتا ہوں اور عین ہدایت کے امتثال (حکم بجالانے)   کی امید رکھتا ہوں ۔   پھر حضرت مجد د الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مکتوب کا کلام ذِکر فرما کر ارشاد فرمایا ’’مولانا انصاف !  آپ یا زید یااور اراکین مصلحت دین و مذہب زیادہ جانتے ہیں یا حضرت شیخ مجدد ؟مجھے ہرگز آپ کی خوبیوں سے امید نہیں کہ اس اِرشادِ ہدایت بنیاد کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ لغو و باطل جانئے،   اور جب وہ حق ہے اور بے شک حق ہے تو کیوں نہ مانئے۔  ‘‘  (مکتوباتِ امام احمد رضا ص۹۰ ملخّصًا) 

آثارِ وصال

            حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی 1033ھ میں سرہند شریف آ کر خلوت نشین (یعنی سب سے الگ تھلگ)   ہو گئے۔   اپنے خالق و مالک عَزَّوَجَلَّسے ملاقات کی  لگن نے مخلوق سے بے نیاز کردیا۔  اس خلوتِ خاص (یعنی خصوصی تنہائی)   میں صرف چندافراد کوحجرے (یعنی کمرے)   میں آنے کی اجازت تھی جن میں صاحبزادگان خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما،   خلفائے کرام میں سے حضرت خواجہ محمد ہاشم کِشمی،  حضرت خواجہ بدر الدین  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما اور دو ایک خادم۔   حضرت خواجہ محمد ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وصال (یعنی انتقال)   سے قبل ہی دکن تشریف لے گئے تھے۔   حضرت خواجہ بدر الدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آخر وقت تک حاضر رہے۔   جب حضرت خواجہ محمد ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  رخصت ہونے لگے تو حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  نے فرمایا:   ’’دُعا کرتا ہوں کہ آخرت میں ہم ایک جگہ جمع ہوں ۔  ‘‘  ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۸۲تا۲۸۵مُلَخَّصًا)    

             وصال مبارک

            28صفرُ المُظَفَّر 1034؁ ھ  /  1624 ء کوجانِ عزیز اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کردی ۔     اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ (۱۵۶)  ۔      (حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم ص۲۰۸)          

نمازِ جَنازہ و تَدفین

          آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید علیہ رحمۃ اللّٰہ المجید نے پڑھائی۔   اس کے بعد شہزادۂ مرحو م حضرت خواجہ محمد صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاق کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔   یہ وہی مقام تھا جہاں حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنی زندگی میں ایک نور دیکھا تھا اور وصیت فرمائی تھی :  ’’میری قبرمیرے بیٹے کی قبر کے سامنے بنانا کہ میں وہاں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری دیکھ رہا ہوں ۔  ‘‘  اس قبے (یعنی گنبد)   میں پہلے شہزادۂ مرحوم حضرت

Index