خواجہ محمد باقی باللّٰہنقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا دہلی میں وصال ہوگیا۔ یہ خبرپہنچتے ہی آپ فوراً دہلی روانہ ہوگئے۔ دہلی پہنچ کر مزارِ پرانوار کی زیارت کی ، فاتحہ خوانی اور اہلِ خانہ کی تعزیت سے فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے۔ (ایضاً ص۳۲، ۱۵۹ مُلَخَّصًا)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا، لیکن 1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیسے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔ عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اورحضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیش ِ نظر رکھا۔ جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کے لیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سنت ِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں ، خلفااور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص۱۵۷ ملخّصًا)
امام غزالی کے گستاخ کو ڈانٹا (حکایت)
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے سامنے فلاسِفہ کی تعریف کرنے لگا، اس کا انداز ایسا تھا کہ جس سے علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی تو ہین لازم آتی تھی، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے سمجھاتے ہوئے فلاسفہ کے رد میں حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکا فرمانِ عالی سنایا تو وہ شخص منہ بگاڑ کر کہنے لگا: غزالی نے نامعقول بات کہی ہے، مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ۔ حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شان میں گستاخانہ جملہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو جلال آگیا! فوراً وہاں سے اٹھے اوراسے ڈانٹتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اگر اہلِ علم کی صحبت کا ذوق رکھتے ہو تو ایسی بے ادبی کی باتوں سے اپنی زبان بند رکھو ۔ ‘‘ (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۳۱)
گستاخ کا عبرتناک انجام (حکایت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی بھی مسلمان کی تحقیردنیا و آخرت دونوں ہی کے لیے نقصان دہ ہے لیکن بزرگانِ دین کی گستاخی کی سزا بعض اوقات دنیا میں ہی دی جاتی ہے تاکہ ایساشخص لوگوں کے لیے عبرت کا سامان بن جائے ۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا تاج الدین عبدالوہاب بن علی سبکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک فقیہ ( یعنی عالم دین) نے مجھے بتا یا کہ ایک شخص نے فقہ شافعی کے درس میں حضرت سیِّدُنا اما م محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکو برا بھلا کہا، میں اس پر بہت غمگین ہوا، رات اسی غم کی کیفیت میں نیند آگئی۔ خواب میں حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکی زیارت ہوئی، میں نے برا بھلا کہنے والے شخص کا ذکرکیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ’’فکر مت کیجیے ، وہ کل مر جائے گا۔ ‘‘صبح جب میں حلقہ ٔ درس میں پہنچاتو اس شخص کو ہشاش بشاش (یعنی بھلا چنگا) دیکھا مگر جب وہ وہاں سے نکلاتو گھر جاتے ہوئے راستے میں سواری سے گرا اور زخمی ہو گیا، سورج غروب ہونے سے قبل ہی مرگیا۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزَّبِیدی ج۱ص۱۴)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسفر میں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے، بسا اوقات تین تین چار چارپارے بھی مکمّل فرما لیا کرتے تھے۔ اس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ ٔ تلاوت فرماتے۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۰۷مُلَخَّصًا)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی دیگر معاملات کی طرح سونے جاگنے میں بھی سنّت کا خیال فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تراویح کے بعد آرام کے لیے بے خیالی میں بائیں (LEFT) کروٹ پر لیٹ گئے ، اتنے میں خادم پاؤں دبانے لگا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اچانک خیال آیا کہ ’’دائیں (RIGHT) کروٹ پر لیٹنے کی سنّت ‘‘ چھوٹ گئی ہے۔ نفس نے سستی دلائی کہ بھولے سے ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُٹھے اور سنّت کے مطابق دائیں ( یعنی سیدھی) کروٹ پر آرام فرما ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اس سنّت پر عمل کرتے ہی مجھ پر عنایات ، برکات اور سلسلے کے انوار کا ظہور ہونے لگااور آواز آئی: ’’ سنّت پر عمل کی وجہ سے آپ کو آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ دیا جائے گااور آپ کے پاؤں دبانے والے خادم کی بھی مغفرت کردی گئی ۔ ‘‘ ( ایضاًص۱۸۰مُلَخَّصًا)