حضرت حاجی حبیب احمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ الاَ حَدفرماتے ہیں : جس دن میں نے حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکو کلمہ طیبہ کا ثواب نذر کیا اسی دن سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے لیے ایک ہزار دانے والی تسبیح بنوائی اور تنہائی میں اس پرکلمہ طیبہ کا ورد فرمانے لگے۔ شبِ جمعہ کو خاص طور پر مریدین کے ہمراہ اُسی تسبیح پرایک ہزار دُرُود شریف کا وِرد فرمایا کرتے۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص ۹۶)
بی بی عائشہ کے ایصال ثواب کی حکایت
امام ربّانی، حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : پہلے اگر میں کبھی کھانا پکاتا تو اس کا ثواب حضور سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَو امیرُالْمُؤمِنِین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمو حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا و حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعَالٰی عنہمکی ارواح مقدسہ کے لئے ہی خاص ایصال ثواب کرتا تھا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ جناب رسالت مآبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہیں ۔ میں نے آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کیاتو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری جانب متوجہ نہ ہوئے اور چہرہ ٔ انور دوسری جانب پھیر لیا اورمجھ سے فرمایا: ’’ میں عائشہ کے گھر کھانا کھاتا ہوں ، جس کسی نے مجھے کھانا بھیجنا ہو وہ (حضرت) عائشہ کے گھر بھیجا کرے۔ ‘‘اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توجہ نہ فرمانے کا سبب یہ تھا کہ میں اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو شریک طعام ( یعنی ایصال ثواب) نہ کرتا تھا۔ اس کے بعدسے میں حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابلکہ تمام اُمَّہاتُ الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکو بلکہ سب اہل بیت کو شریک کیا کرتا ہوں اور تمام اہل بیت کو اپنے لئے وسیلہ بناتا ہوں ۔ (مکتوباتِ امام ربّانی، دفتر دوم حصہ ششم مکتوب ۳۶ ج۲ ص۸۵) اللہُ رَبُّ العِزِّتْ عَزَّ وَجَلَّکی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
تمام عورتوں میں سب سے پیاری بی بی عائشہ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت سے معلوم ہوا کہ جن کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ان کو پہنچ جاتا ہے یہ بھی پتا چلا کہ ایصال ثواب محدود بزرگوں کوکرنے کے بجائے سبھی کو کر دینا چاہئے ۔ ہم جتنوں کو بھی ایصال ثواب کریں گے سبھی کو برابر برابر ہی پہنچے گا اور ہمارے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ ([1]) یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے آقا، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَا ُمُّ المؤمنینحضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے بے حد اُنسیت رکھتے ہیں ۔ ’’بخاری‘‘ شریف کی روایت ہے ، حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب’’ غزوۂ سلاسل‘‘ سے واپس لوٹے تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا: (عورتوں میں ) عائشہ۔ انہوں نے پھر عرض کی: مردوں میں ؟ فرمایا: ان کے والد (یعنی حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) ۔ (بخاری ج ۲ ص ۵۱۹ حدیث ۳۶۶۲)
بنت صدیق آرام جان نبی اس حریم براء ت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام ( حدائقِ بخشش شریف ص۳۱۱)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ولی ولی کو پہچانتا ہے (حکایت)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی جن دنوں مرکزالاولیا لاہور میں قیام پذیر تھے اس دوران ایک سبزی فروش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس کے جانے کے بعد آپ سے عرض کی گئی: وہ تو سبزی فروش تھا! (اس کی ایسی تعظیم؟) ارشاد فرمایا: وہ ابدال (یعنی وَلِیُّ اللّٰہ ) ہیں ، خود کو چھپانے کے لیے یہ پیشہ اختیار کر رکھاہے ۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۹۸ )
’’ سرہندشریف ‘‘ کے نو حُرُوف کی نسبت سے 9 کرامات
{۱} ایک وَقت میں دس گھروں میں تشریف آوری (حکایت)
[1] مزید معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ سے رسالہ ’’ فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ (صفحات28) ‘‘ ہدیۃً حاصل کرکے پڑھئے۔