تذکرۂ مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی

حُروف کی تعظیم کی جائے

            فتاوٰی رضویہ شریف میں ہے:  ’’ہمارے عُلَما تصریح (یعنی واضِح طورپر)  فرماتے ہیں کہ  نفسِ حُرُوف قابِلِ اَدَب ہیں اگرچِہ جُدا جُدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وَصْلِی (کا غَذ)  پر خواہ ان میں کوئی بُرانام لکھا ہو جیسے فِرعَون،   ابوجَہْل وغیرہُما تاہم حُرُوف کی تَعظِیم کی جائے اگرچہ اِن کافروں کا نام لائق اِہانت و تَذلِیْل ہے۔  ‘‘  (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص۳۳۶خود ابو جَہل کی کوئی تعظیم نہیں کہ یہ تو سخت کافر تھا مگرچُونکہ لفظِ ’’ابوجَہْل‘‘کے تمام حُرُوفِ تَہجَّی (اب و ج ہ ل)   قُراٰنی ہیں ۔  اِس لئے لکھے ہوئے لفظ’’ابوجَہْل‘‘ کے حروف کی  (نہ کہ شخصِ ابوجَہْل کی)  ان معنوں پر تَعْظِیم ہے کہ اُس کو ناپاک یا گندی جَگہوں پر ڈالنے اور جُوتے مارنے وغیرہ کی اِجازَت نہیں ۔  فتاوٰی عالمگیری میں ہے:  ’’جب فِرعَون یا ابوجَہْل کا نام کسی ہَدَف یانشانے پر لکھاہو تو (نشانہ بناکر)  اِن کی طرف تِیرپھینکنا مَکْرُوہ ہے کہ اِن حُرُوف کی بھی عزّت و توقیرہے۔  ‘‘ (عالمگیری ج۵ص۳۲۳اَلْبَتَّہ ٹِشو پیپرسے ہاتھ پونچھنے یا ٹائلِٹ پیپرسے جائے اِستِنْجا خشک کرنے کی علمائے کرام اِجازَت دیتے ہیں کیونکہ یہ اِسی کام کیلئے تیّار کئے جاتے ہیں اور اِن پر کچھ لکھا نہیں جاتا۔ 

جوانی کیسے گزاریں ؟

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  عمر کا کوئی سا بھی حصہ ہو،   نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہنے میں بھلائی نہیں اور نفس کی شرارت جوانی کے زمانے میں تو عروج (یعنی بُلندی)   پر ہوتی ہے،   نفس کو علم و عمل کی لگام ڈال کر اس کی تربیت کرنے کا یہی وقت ہوتا ہے ۔  حضرت سیِّدُنا  مجدّ د الف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں :  ’’جوانی کی ابتدا جس طرح ہوا وہوس (یعنی خواہشات کے ابھرنے )   کا وقت ہے،   اسی طرح علم وعمل کواپنانے کا بھی یہی وقت ہے،   جوانی میں کی جانے والی عبادات بڑھاپے کی عبادات سے افضل ہیں ۔  ‘‘ (مکتوباتِ امام ِربّانی،  دفتر سوم ،  حصہ ہشتم،  مکتوب۳۵ ج ۲ص۸۷ ملخّصًا) 

جوانی نعمتِ خداوَندی

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  ایّامِ جوانی کے اَوقات کی قدْر دانی بہت ضروری ہے کیونکہ جوانی میں انسان کے اَعضا مضبوط اور طاقتورہوتے ہیں ،   جس کی وجہ سے اَحکام وعبادات کی بجاآوری،   خوش اُسلوبی کے ساتھ ممکن ہوتی ہے،   بُڑھاپے میں یہ بہاریں کہاں نصیب!   اُس وقْت تو مسجد تک جانا بھی دشوار ہو جاتاہے۔   بھوک پیاس کی شدّت برداشْت کرنے کی بھی ہِمّت نہیں رہتی،   نفْل تو کُجا فرْض روزے پورے کرنے بھی بھاری پڑجاتے ہیں ۔   جوانی اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بہت بڑی نعمت ہے،   جسے یہ نعمت ملے اُسے اِس کی قدْر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وَقْت عبادت واِطاعت میں گزارنا چاہئے،  اوقات کے اَنمول ہیروں کو نفع مندبنانا چاہئے۔   حکیم ُ الا ُمّت حضرت مفتی احمدیار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نقل فرماتے ہیں :  ’’ جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت سے افضل ہے کہ عبادات کا اصل وقت جوانی ہے۔  شعر

کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں                   جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن پڑتی نہیں

ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی ہوچکی               یہ بڑھاپا بھی نہ ہوگا موت جس دم آگئی

وقت کی قدر کرو،  اسے غنیمت جانو،   گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔  ‘‘  ( مراٰۃ المناجیح ج۳ص۱۶۷

حافِظِ قراٰن کا ادب

            ایک مرتبہ ایک حافِظ صاحب حضرتِ سیِّدُنا مجدد اَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے پاس بیٹھ کر قراٰنِ کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔   آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب ان کی طرف نگاہ فرمائی تو دیکھا کہ جس جگہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف فرماہیں وہ جگہ حافظ صاحب والی جگہ سے تھوڑی اونچی ہے۔   آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فوراً اپنی نشست (یعنی بیٹھک)   نیچی کردی۔     ( زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص۱۹۵)   

مُجدِّد اَلْفِ ثانی کے 40 معمولات

٭ سفر ہو یا حضر ،   سردی ہو یا گرمی ،  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  آدھی رات کے بعد بیدار ہو جاتے اورمسنون دعائیں پڑھتے ٭پابندی سے تہجد ادا فرماتے اور تہجد میں طویل قرائَ ت کرتے ٭قبلہ رو بیٹھ کر وضو فرماتے اور ٭وضو میں کسی سے مدد نہ لیتے ٭وضو میں مسواک فرماتے،  فراغت کے بعد کاتب (یعنی لکھنے والے)   کی طرح مسواک کبھی کان پر لگا لیتے اور کبھی خادم کے سپرد فرما دیتے ٭وضو کے دوران تمام سنن و مستحبات کا خوب خیال فرماتے ٭ اعضائے وضو دھوتے وقت اوروضو کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے ٭نماز کے لئے عمدہ لباس زیبِ تن فرماتے اور نہایت وقار کے ساتھ نمازکی ادائیگی کے لئے تیّار ہو جاتے ٭نمازِ فجر کی سنتیں گھر میں ادا فرماتے ٭فجر کے فرض مسجد میں جماعتِ کثیرہ (یعنی بہت بڑی جماعت)   کے ساتھ ادا فرماتے ٭نمازسے فراغت کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے،    پھردائیں یابائیں جانب رخ فرما کر دعا فرماتے اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے ٭نماز کے بعد ذِکر،   تلاوتِ قراٰنِ کریم کاحلقہ قائم کرتے اورابتدائی طالب علموں کی تربیت فرماتے ٭آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اکثر خاموش رہا کرتے ٭بعض اوقات آپ پر گریہ (یعنی رونا)   طاری ہو جاتا اور

Index