تذکرۂ مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی

شیروں پہ شرف رکھتے ہیں دربار کے کتے       شاہوں سے بھی بڑھ کر ہیں گدایانِ محمد

 صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۸}  بد عقیدگی کاخواب میں علاج فرمادیا  (حکایت) 

     ایک شخص بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان الخصوص حضرت سیِّدُنا امیر معاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کینہ رکھتا تھا۔   ایک دن وہ ’’ مکتوباتِ امام ربانی‘‘کا مطالعہ کررہا  تھا،  کہ اس میں یہ عبارت پڑھی:  ’’حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کو بُرا کہنے کو حضرت سیِّدُنا صدیق اکبر،  حضرت سیِّدُنا فاروق اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عنھما کو برا کہنے کے برابر قرار دیا ہے۔  ‘‘  تو وہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے رنجیدہ ہو گیا اور (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)  مکتوبات شریف کی کتاب زمین پر پھینک دی۔  جب وہ شخص سویا تو حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی اُس کے خواب میں تشریف لے  آئے۔  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نہایت جلال میں اس کے دونوں کان پکڑ کر فرمانے لگے:   ’’تو ہماری تحریر پر اعتراض کرتا اور اسے زمین پر پھینکتا ہے !  اگر تو میرے قول (یعنی بات)   کو معتبر نہیں سمجھتا تو آ !  تجھے حضرت سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہی کے پاس لے چلوں ،  جن کی خاطر تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکو برا کہتا ہے ۔  ‘‘پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاسے ایسی جگہ لے گئے جہاں ایک نورانی چہرے والے بزرگ تشریف فرماتھے۔   حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے نہایت عاجزی سے اُس بزرگ کو سلام کیا پھر اس شخص کو نزدیک بلاکر فرمایا:  یہ تشریف فرما بزرگ حضرت سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہیں ،  سن!  کیا فرماتے ہیں ۔  اُس شخص نے سلام کیا،  سیِّدُنا شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اسے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا:  خبردار !    رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے صحابہ سے کدورت (یعنی رنجش)   نہ رکھو،  ان کے بارے میں کوئی گستاخانہ جملہ زبان پرنہ لاؤ ۔   پھرحضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی جانب اشارہ کرکے اُس سے فرمایا:  ’’ان کی تحریر سے ہرگز نہ پھرنا  (یعنی مخالفت مت کرنا)  ۔  ‘‘اس نصیحت کے بعد بھی اس کے دل سے صحابۂ کرام کا کینہ دور نہ ہوا تو مولائے کائنات حضرت سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:  اس کا دل ابھی تک صاف نہیں ہوا ۔   یہ فرماکرحضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سے تھپڑرسید کرنے کافرمایا ،  حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جوں ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے گدی پر تھپڑ مارا تو دل سے صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی ساری کدورت (یعنی نفرت)   دُھل گئی۔  جب  وہ بیدا ر ہوا تو اس کادل صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی محبت سے معمور تھا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی محبت بھی سوگنا زیادہ بڑھ چکی تھی۔    (حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم  ص۱۶۷ مُلَخَّصًاً

{۹}  اپنی وفات کی پہلے ہی خبر دیدی (حکایت) 

            حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنے انتقِال سے بہت پہلے ہی اپنی زوجۂ محترمہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہاسے فرما دیا تھا کہ مجھ پر ظاہِر کردیا گیا ہے کہ میرا اِنتقال تم سے پہلے ہوجائے گا چُنانچِہ ایسا ہی ہوا کہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ان سے پہلے وصِال  (یعنی انتقال )   فرماگئے۔       (ایضاً ص۲۰۸ مُلَخَّصًا

مِٹی کا کونا ٹوٹا ہوا پیالہ  (حکایت) 

سلسلئہ عالِیہ نَقْشْبَنْدِیَّہ کے عظیم پیشواحضرتِ سیِّدُنا مُجدِّد اَلْفِ ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے ایک دن عام بَیتُ الْخَلا میں بھنگی کے پاس صَفائی کیلئے گندگی سے آلود بڑا سا مِٹّی کا کونا ٹوٹا ہوا پِیالہ رکھا  دیکھا تو بیتاب ہو گئے کیونکہ اُس پیالے پرلَفْظْ،  اللہ کَنْدَہ تھا !  لپک کرپیالہ اُٹھالیا اور خادِم سے پانی کا آفتابہ  (یعنی ڈھکَّن والا دَستہ لگا ہوا لوٹا)  منگوا کر اپنے دستِ مبارَک سے خوب مَل مَل کر اچھی طرح دھو کر اُس کو پاک کیا،   پھر ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر اَدَب کے ساتھ اُونچی جگہ رکھ دیا۔   آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُسی پیالے میں پانی پیا کرتے۔   ایک دناللہکی طرف سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اِلْہام فرمایا گیا :   ’’ جس طرح تم نے میرے نام کی تَعظِیم کی میں بھی دنیا وآخِرت میں تمہارا نام اُونچا کرتا ہوں ۔  ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے  تھے:  ’’ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے نامِ پاک کا اَدَب کرنے سے مجھے وہ مقام حاصل ہوا جو سو سال کی عبادت و رِیاضت سے بھی حاصل نہ ہو سکتا تھا۔  ‘‘  (ایضاً ص۱۰۶

سادہ کاغذ کا بھی ادب

            سلسلئۂ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا شیخ احمد سر ہندی المعروف مجدد اَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسادہ کاغذ کا بھی احتِرام فرماتے تھے،   چُنانچِہ ایک روز اپنے بچھونے پر تشریف فرماتھے کہ یکایک بے قرار ہو کر نیچے اُتر آئے اور فرمانے لگے:   معلوم ہو تا ہے،   اِس بچھونے کے نیچے کوئی کاغذ ہے۔    (زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص۱۹۴ 

راہ چلتے ہوئے کاغذات کو لات مت ماریئے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  معلوم ہوا،   سادہ کاغذ کا بھی اَدَب ہے اور کیوں نہ ہو کہ اِس پر قراٰن و حدیث اور اسلامی باتیں لکھی جاتی ہیں ۔   اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّبیان کردہ حکایت میں حضرت سیِّدُنا مجدد اَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی کھلی کرامت ہے کہ بچھونے کے نیچے کے کاغذ کا ظاہری طور پر بن دیکھے پتا چل گیا اور آپ نیچے اُترآئے تا کہ غلاموں کو بھی کاغذات کے اَدَب کی ترغیب ملے۔  ’’بہار ِشریعت‘‘ جلد اوّل صفحہ 411 پر ہے:   ’’کاغذ سے اِستِنجا مَنْع ہے اگر چِہ اُس پر کچھ بھی نہ لکھا ہو یا ابوجَہْل ایسے کافِر کا نام لکھا ہو۔  ‘‘

 

Index