حضرت سیِّدُنا مجدِّدِ اَلْفِ ثانی شیخ احمد سرہندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کو دس مریدوں میں سے ہر ایک نے ماہِ رَمَضانُ الْمبارک میں ایک ہی دن افطار کی دعوت دی، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب کی دعوت قَبول فرمالی ، جب غروبِ آفتاب کا وَقت ہوا تو ایک ہی وَقت میں سب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ روزہ افطار فرمایا۔ (جامع کرامات الاولیاء للنبہانی ج ۱ ص ۵۵۶)
{۲} فوراًبارِش بند ہو گئی (حکایت)
ایک مرتبہ بارش برس رہی تھی تو حضرتِ سیِّدُنا مجدِّدِ اَلْفِ ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور بارِش سے اِرشاد فرمایا: ’’فُلاں وَقت تک رُک جا! ‘‘ چُنانچِہ بارش اُسی وَقت تک تَھم (یعنی رُک) گئی۔ (ایضاً ج۱ص۵۵۶)
{۳} اِسے ہاتھی کے پاؤں تلے کُچلوا دیا جائے (حکایت)
ایک امیر زادے سے بادشاہ ناراض ہوگیااور اسے مرکز الاولیا (لاہور) سے سرہند طلب کیا۔ اس کے بارے میں یہ حکم جاری کیا کہ جیسے ہی یہ آئے تواسے ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کُچلوا دیا جائے۔ وہ امیر زادہ جب سرہند پہنچا تو حضرتِ سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی خدمتِ بابرکت میں حاضِر ہو کر نہایت ہی عاجِزی کے ساتھ اپنی نَجات کے لیے عرض گزار ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ دیر مُراقَبہ کیا پھر فرمایا: بادشاہ کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی بلکہ وہ تم پر مہربان ہوگا۔ اس امیر زادے نے عرض کی: عالیجاہ! آپ لکھ کر دے دیجیے تاکہ یہ تحریر میری تسکینِ قلبی (یعنی دل کے سکون) کا سامان ہو ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کی تسلّی کے لیے یہ تحریر فرمایا: ’’ یہ شخص بادشاہ کے غصّے کے خوف سے یہاں آیاہے لہٰذا اِس فقیر نے اپنی ضَمانت میں لے کر اسے اس مصیبت سے رہائی دے دی ۔ ‘‘ وہ امیر زادہ جیسے ہی بادشاہ کے دربار میں پہنچا توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اِرشاد کے مطابِق بادشاہ نے اُسے دیکھا تو مسکرایا اور نصیحت کے طور پر چند باتیں کہیں اور نہایت مہربانی کے ساتھ اِنعام و اِکرام سے نواز کر رخصت کردیا۔ (حَضَراتُ الْقُدْس، دفتر دُوُم ص ۱۷۰ ملخّصاً )
{۴} بچّے کے بارے میں غیبی خبردی (حکایت)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے ایک عزیز کے ہاں بیٹا پیدا تو ہوتا لیکن چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جاتا۔ ایک بار جب بیٹا پیدا ہوا تو وہ بچّے کو لے کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضِر ہوا اور سارا ماجرا سنایااور عرض کی کہ ہم نے مَنَّت مانی ہے کہ اگر یہ بچّہ بڑا ہوا تو ہم اسے آپ کی غلامی میں دے دیں گے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ’’اس کا نام عبد الحق رکھو، یہ زندہ رہے گا اور بڑی عمر پائے گا، لیکن ہر ماہ حضرت خواجہ بہاء ُالدّین نقشبند عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الصَّمَد کی نیاز دلواتے رہو۔ ‘‘اَلْحَمْدُلِلّٰہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے فرمان کی بَرَکت سے وہ بچّہ بڑی عمر کو پہنچا۔ (ایضاً ص ۲۰۵ ملخّصاً )
{۵} دل کی بات جان لی! (حکایت)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے ایک مُرید کا بیان ہے کہ میں چُھپ کر افیون کھایا کرتا تھا اور اس بارے میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ ایک دن میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے ہمراہ جارہا تھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے میں تمہارے دل میں تاریکی (یعنی اندھیرا) دیکھتا ہوں ؟ میں نے اِقرار کیا کہ میں چُھپ کر افیون کھاتا ہوں لیکن اب اس سے توبہ کرتا ہوں ۔ (ایضاً)
{۶} مانگ کیا منگتا ہے؟ (حکایت)
ایک دن حضرتِ سیِّدُنا مجدِّدِ اَلْفِ ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی تنہائی میں تشریف فرماتھے اور ایک نو مسلم (یعنی نیا مسلمان ) آپ کی خدمتِ بابرکت میں موجود تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اُس سے فرمایا: ’’ مانگ کیا مانگتا ہے؟ جو مانگے گاوُہی ملے گا۔ ‘‘ اُس نے عرض کیا: ’’عالیجاہ! میرا بھائی اور والِدہ اپنے کُفْر میں بڑی شدّت (یعنی سختی ) رکھتے ہیں ، میری بہت کوشش کے باوُجُود وہ اسلام قَبول نہیں کرتے، آپ توجُّہ فرمادیجئے کہ وہ مسلمان ہوجائیں ۔ ‘‘ فرمایا : اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہئے؟ عرض کی: آپ کی توجُّہ سے مجھے بھلائیاں مل جائیں گی، لیکن ابھی یہی خواہش ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں ۔ فرمایا: ’’وہ بہت جلد مسلمان ہوجائیں گے۔ ‘‘آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے فرمانے کے تیسرے دن اس کا بھائی اور والِدہ دونوں سرہند شریف آکر مُشَرّف بہ اسلام ہوگئے۔ (ایضاًص۲۰۳مُلَخَّصًا) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّکی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
{۷} مرید کی مدد فرمائی (حکایت)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے مریدِ خاص سید جمال ایک روز کسی وادی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شیر سامنے آگیا! اُن کے قدم وہیں جم گئے ، آناً فاناً اپنے مرشد حضرت مجدّدِاَلف ثانی کی بارگا ہ میں عرض کی: بچائیے! اُسی وقت حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہاتھ میں عصا (STICK) تھامے اپنے مرید کی دست گیری (یعنی مدد ) کے لیے تشریف لے آئے ، شیر کو عصا مار ا، جب سیدجمال صاحب نے آنکھ کھولی تو شیر کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بھی تشریف لے جا چکے تھے۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۶۳ مُلَخَّصًاً) ؎